بلوچستان میں روزگار کے ذرائع انتہائی محدود ہیں۔ بلوچستان سے منسلک ایران اور افغانستان سے ملنے والے سرحدی علاقوں کے لوگوں کا بیشتر کاروبار انہی ممالک کے سامان کی تجارت سے جڑا ہے چونکہ متبادل کوئی معاشی مواقع موجود نہیں تو عوام مجبور ہوکر ایران اور افغانستان سے سامان لاکر اپنے علاقوں میں فروخت کرتے ہیں جس کی قیمت دیگرممالک کے مصنوعات سے انتہائی کم ہوتی ہے اگر کہاجائے کہ کروڑوں روپے روزانہ تجارت ہوتی ہے تو غلط نہ ہوگا جبکہ ہزاروں خاندانوں کا چولہا بھی اسی سے جلتا ہے جب بھی سرحدبند ہوتے ہیں۔
تو ان علاقوںکے عوام نان شبینہ کامحتاج ہوجاتے ہیں گوکہ قانونی طریقے سے یہ کاروبارنہیں ہوتے مگر اس کی ذمہ دار سرحدی علاقوں کے کاروباری طبقہ اور عوام نہیں بلکہ حکومت ہے کیونکہ دونوں ممالک کے ساتھ تجارت کو وسیع پیمانے پر فروغ دینے کیلئے کبھی بھی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور ایسا منصوبہ بھی نہیں بنایاگیا کہ سرحدی علاقوں کے لوگ ان بڑے ممالک کے ساتھ قانونی تجارت کے ذریعے فائدہ اٹھاسکیں اس لئے مجبور ہوکر اشیاء خوردنی سمیت پیٹرولیم مصنوعات کا کاروبار کرتے ہیں مگر گزشتہ کچھ عرصے سے پیٹرولیم مصنوعات پر پابندی عائد کی گئی ہے ۔
جس کی وجہ سے سرحدی علاقے کے عوام نہ صرف سراپااحتجاج ہیں بلکہ یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ ایران سے منسلک بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے پیٹرولیم مصنوعات لانے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کا معاشی مسئلہ حل ہوسکے۔ بہرحال گزشتہ روز وزیراعظم نے واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ اسمگلنگ کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی خاص کر پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ کیخلاف سخت کارروائی کی ہدایت بھی کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اعلیٰ سطی اجلاس کے دوران کہا کہ اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی عمل میںلائی جائے۔
اجلاس میں اسمگلڈ تیل کی فروخت سے متعلق امور پر بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ میں آگاہ کیا گیا کہ اسمگلڈ تیل سے معیشت کو 100 سے 150 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے اور اس وقت ملک میں 2 ہزار 94 پیٹرول پمپس اسمگلڈ تیل کی فروخت میں ملوث ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کاکہناتھاکہ اسمگلنگ کی وجہ سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور انسداد اسمگلنگ اقدامات سے محصولات میں اضافہ ہو گا۔بہرحال اسمگلنگ کو کسی بھی ملک میں جائز کاروبار نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں۔
مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں پابندیاںاور کارروائیوں کے حوالے سے حکومت سخت ہدایات تو جاری کرتی ہے مگرمتبادل ذرائع کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں بناتی کہ کئی دہائیوں سے اس کاروبار سے منسلک عوام کو دو وقت کی روٹی کیلئے کیا بندوبست کیاجائے تاکہ حکومتی اقدامات کو عوامی سطح پر سراہا بھی جاسکے ،ایسی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے اگر حکومت وسیع تر مفاد میں فیصلہ کرتے ہوئے اس حوالے سے سوچ بچار کرے کہ ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارت کو قانونی طریقے سے آگے بڑھانے کیلئے بہترین معاشی منصوبہ بندی کرے تو سرحدی علاقوں کے عوام کے مسائل کافی حد تک حل ہوجائینگے۔
لیکن بدقسمتی سے اس جانب توجہ دی ہی نہیں جاتی تو پھر عوام مجبوراََ اسمگلنگ کے ذریعے وہی کاروبار کرینگے جو دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں ۔اب جبکہ ایوان بالامیں سرحدی علاقوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات اہم عہدوں پر فائز ہیں اور وہ سرحدی علاقوں کے عوام کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اس لئے انہیں بھی اپنامؤثر کردار اداکرنا چاہئے اور حکومت کو بہترین تجاویز پیش کرتے ہوئے اس مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا چاہئے تاکہ اسمگلنگ کی روک تھام میں مدد بھی مل سکے اور کوئی نان شبینہ کا محتاج بھی نہ ہو۔