|

وقتِ اشاعت :   January 5 – 2021

گزشتہ روز مچھ کوئلہ فیلڈ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 11 کان کن جاں بحق اور زخمی ہو گئے ۔پولیس حکام کے مطابق مسلح افراد مچھ کوئلہ فیلڈ میں کام کرنے والے کان کنوں کو پہلے اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے اورقریبیپہاڑیوں میں سفاکانہ طریقے سے قتل کردیا۔ یہ بلوچستان میں رونما ہونے والا شدت پسندی کا پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی شدت پسند گروپوں نے بڑے واقعات میں ہمارے پڑھے لکھے طبقے، مزدوروں سمیت عام شہریوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جس میں ایک بڑی تعداد ہزارہ کمیونٹی کی ہے جسے کئی دہائیوں سے دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔

ہزارہ کمیونٹی کو ان کے علاقے کے اندر خود کش، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جن میں ہزارہ کمیونٹی کی بڑی تعداد ان واقعات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ ان واقعات کیخلاف ہزارہ کمیونٹی کی جانب سے طویل دھرنا جسد خاکی کے ہمراہ دیا گیا جبکہ حکمرانوں کی جانب سے یہ تسلی دی گئی کہ انہیں مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے گی مگر اس کے باوجود ہزارہ کمیونٹی دہشتگردی کے اس عفریت سے نہیں نکل سکی یہاں تک کہ وہ اپنے علاقوں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں، آج بھی ہزارہ کمیونٹی خوف کے ماحول میں اپنے علاقوں سے باہر نکلتی ہے جبکہ ان کے اپنے علاقے داخلی و خارجی راستوں سے سیل ہیں۔

جہاں پر عام شہریوں کا بلاجواز داخلہ ممنوع ہے ،ظاہر ہے اس کی وجہ سیکیورٹی کے معاملات ہیں مگر ان تمام تر اقدامات کے باوجود آج بھی ہزارہ کمیونٹی دہشتگردوں سے خود کو محفوظ نہیں سمجھتی ، ان کے نوجوان بھی موٹر سائیکل کی سواری کے دوران ہیلمٹ کا استعمال کرتے ہیں جس کی اصل وجہ اپنی شناخت کو چھپانا ہوتاہے تاکہ کوئی دہشتگرد ان کو ہدف نہ بناسکے ،اسی طرح دیگر سفر کے دوران بھی وہ خوفزدہ ہوکر نکلتے ہیں۔ بہرحال بلوچستان کا معاشرہ، اس کی تاریخ کچھ اور بتاتی ہے کہ شدت پسندی کابلوچستان کے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔

اور اب بھی بلوچستان کے مقامی لوگ اس طرح کی دہشتگردی کی مذمت کرتے ہوئے اسے اپنے کلچر اور روایات کے منافی سمجھتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے حملوں کے پیچھے بیرونی قوتیں ملوث ہیں جو ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام چاہتے ہیں اور بلوچستان کو سیکیورٹی زون بناکر اسے جنگ زدہ ماحول میں دھکیلنا چاہتے ہیں مگر حکومت اس دہشتگردی کی نئی لہر کی حساسیت کو بھانپتے ہوئے بلوچستان میں سب سے پہلے غیر ملکی تارکین وطن کی نقل و حرکت کو محدود کرے اور شدت پسند گروپس کیخلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغازکرے تاکہ اس لہر کو یہیں روکا جاسکے۔

محض بیانات سے ان کی سفاکانہ کارروائیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا لہذا تمام سیاسی جماعتوں کو اس وقت ایک پیج پر ہونا چاہئے اور مشترکہ تجاویز و حکمت عملی کے ساتھ شدت پسندی کے خاتمے کیلئے کردار ادا کرنا چائیے تاکہ کوئی اور سانحہ پیش نہ آسکے۔ دہشتگردی کے خاتمے سے ہی تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں سیکیورٹی حصار میں رہ کر کوئی بھی شہری خود کو محفوظ نہیں سمجھتا لہذا دہشتگردی کا ہی جڑ سے خاتمہ کیا جائے تاکہ لوگ پرسکون ماحول میں زندگی گزار سکیں۔