کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کی رہنماء ورکن صوبائی اسمبلی شکیلہ نویددہوارنے کہا ہے کہ بلوچستان میں خواتین بااختیارہیں ہمیں اس بارے میں شعوراجاگرکرنے کی ضرورت ہے ،بلوچ معاشرے میں گھریلو معاملات سے فیصلہ کرتے وقت خواتین کے صلح ومشوروں کواولیت دی جاتی ہے ،انہوں نے کہا کہ صرف مارپیٹ ہی نہیں بلکہ ذہنی دبائو بھی تشددکی ایک قسم ہے ، تبدیلی آنے میں وقت ضرورلگتاہے۔
مگرہمیں یہ تسلیم کرناپڑے گا کہ وقت کیساتھ معاملات میں بہتری آتی ہے ،ترقی کے عمل میں خواتین کو شامل کرنے کیلئے ہمیںگھریلوسطح پر اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے ۔ان خیالات کااظہارانہوں نے بدھ کے روز ماہنامہ ماہتاک بلوچیہ،غیرسرکاری تنظیم وومن شرکت گاہ اورکوئٹہ پریس کلب کے زیراہتمام صنفی بنیادپرتشددکیخلاف سولہ روزہ آگاہی مہم کے سلسلے میں ’’خواتین کے حقوق اورمیڈیا‘‘کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کوئٹہ پریس کلب کے جنرل سیکریٹری ظفربلوچ نے کہا کہ میڈیا میںخواتین کیخلاف تشددکے بڑھتے ہوئے کیسزکو اجاگرکیاجاگیا ہے ،بلوچستا ن یونیورسٹی میں خواتین کیلئے شعبہ جرنلزم میں 20سیٹیں مختص کئے گئے ہیں مگراپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعدفیلڈمیں نہیںآتے کوئٹہ پریس کلب میں خواتین کو صدارت کاعہدہ بھی ملا ہے۔
مگرمصروفیات ومشکلات کی وجہ سے وہ وقت نہیں دے پاتے، انہوں نے کہا کہ خواتین مایوس نہ ہوں بلکہ آگے آکربھرپورمحنت کریں اس میں وقت لگے گا اپنی صلاحیتوں میں بہتری لاکراپنے کام میں مزیدبہتری لانے کی ضرورت ہے ،انہوں نے کہا کہ بلوچ معاشرے میں گھروں میں فیصلے کرتے وقت خواتین کے صلح ومشوروں کو اہمیت دیتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ صحافت کے شعبے میں برابری کی بات کرتے ہوئے کارکردگی بھی دکھاناہوگا۔
بلوچستان یونیورسٹی میں خواتین کوہراساں کرنے کامسئلہ پیش آیا جس کوملکی میڈیامیں بہترکوریج دی گئی ،تعلیم یافتہ ہونے کیساتھ ساتھ آپ کو مصائب کامقابلہ کرنے کیلئے آگے آناہوگا، اس موقع پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نائب صدرسلیم شاہدنے کہا کہ خواتین کو بااختیاربنانے کیلئے وقت کیساتھ جدوجہد کی ضرورت ہے ، اس میں سیاسی جماعتوں کواسمبلی فلورپرآوازبلندکرناہوگا۔
سیاسی جماعتوںمیں خواتین کی الگ ونگ بناکرانہیں آگے آنے کاموقع نہیں دیاجاتا ،صرف پی پی پی ہے جہاں پر خواتین کو برابری کی بنیادپرموقع دیاگیاہے، متعددمیڈیا ہوئوسزمیںبھی ’’خواتین رپورٹرز‘‘کومخصوص بیٹ پر محدودکیاگیا آج کے دورمیں تبدیلی آئی ہے اورہمارے شعبے میں خواتین بہتررپورٹنگ کررہی ہیں ،بشریٰ قمر،سعدیہ جہانگیرودیگرخواتین صحافی کوئٹہ میں مختلف واقعات کی لائیوکوریج کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ این جی اوزمیں خواتین کوبااختیاربنانے کی بات توکی جاتی ہے مگران کے بڑے عہدوں پرمردبراجمان ہیں صرف بات چیت سے نہیں بلکہ اس کیلئے جہدمسلسل کی ضرورت ہے ،جبب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلیں ہم ترقی نہیں کرسکتے ،خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ محنت کرتی ہیں ،خواتین ہمارے ملک کی آبادی کاآدھاحصہ ہیں جن کی صلاحیتوں میں نکھارلاکرانہیں مواقع فراہم کرنے ہوںگے۔
پاکستان میں صرف پشاورمیں فرزانہ علی نجی ٹی وی چینل کی بیوروچیف ہیں ،کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی خاتون رپورٹرنے ملکی سطح پر ایوارڈبھی اپنے نام کئے ہیں ،ہمیں برداشت کرکے خواتین کو آگے آنے کاموقع دیناہوگا۔اس موقع پر ڈاکٹرسادات میر،احمد نواز،بجارخان مری،میربہرام بلوچ، ضیاء بلوچ، عبدالحئی ایڈووکیٹ،شمس مندوخیل،انوربلوچ،سیمابتول۔
رضیہ سلطانہ،اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹرشاہدہ حبیب علیزئی،فاطمہ خان نبیلہ ودیگر مقررین نے کہا کہ ہمیں اپنے گھروں میں خواتین کو بااختیاربنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں سے بچوں کی ذہن سازی بھی ہوسکے اوروہ معاشرے میں دیگرخواتین کااحترام کریں،معاشرے میں خواتین کی قربانیوں کونظراندازکرنا ممکن نہیں ہے ،اگرخواتین کوصحافت کے شعبے میں کام کرنے کااموقع دیاجائے۔
تووہ اپنے مسائل بہتراندازمیں اجاگرکرسکتی ہیں ،اللہ تعالیٰ نے خواتین کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازاہے جو ہرقسم کے معاملات ومسائل کو حل کرنے میں کرداراداکرسکتی ہے،شعوروآگاہی کے فقدان کے سبب بلوچستان میں خواتین کافی پسماندہ ہیں۔
یہاں پر انہیں وہ حق نہیں ملتاجس کے وہ حقدارہیں ،خواتین کو بااختیاربنانے کیلئے ہمیں اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے ہم انہیں تعلیم وصحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کویقینی بناتے ہوئے انہیں برابری کی بنیادپرحقوق دیناہوںگے ،صحافت کے شعبے میں انہیں پلیٹ فارم فراہم کریں۔