|

وقتِ اشاعت :   January 8 – 2021

ملک کو 70سال سے زائد عرصہ بیت گیا مگر ہمارے یہاں مثالی حکومت کا کوئی نام ونشان ہی نہیں ملتا، تاریخ میں مختلف سانحات رونما ہوتے رہے ہیں ۔اپوزیشن نے حکمران جماعت کو دباؤ میں لانے کیلئے محض سطحی سیاست کی اور یہی تاریخ باربار دہرائی جاتی رہی ہے ۔حال ہی میں مچھ کا انتہائی دلخراش سانحہ رونما ہواجس میں مزدوروں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ شناخت کرکے قتل کیا گیاجس پر لواحقین سمیت ہزارہ برادری نے میتوں کے ہمراہ دھرنا دے رکھا ہے ۔6روز سے دھرنا جاری ہے اور مظاہرین کا یہی مطالبہ ہے کہ جب تک وزیراعظم عمران خان خود کوئٹہ تشریف نہیں لائینگے۔

تب تک یہ احتجاج جاری رہے گا۔مسلم لیگ ن کے دور میں ہزار گنجی مارکیٹ میں ہزارہ کمیونٹی کو جب ٹارگٹ کیا گیا تو اس دوران بھی طویل احتجاجی دھرنا دیا گیا اور ان کا مطالبہ یہ تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ جب تک کوئٹہ تشریف نہیںلائینگے احتجاج کو ختم نہیںکیاجائے گا کیونکہ ہم اپنے مطالبات پاک فوج کے سربراہ کے سامنے ہی رکھیں گے جس میں پہلامطالبہ ہی دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے تھا اور ہزارہ کمیونٹی کو مکمل تحفظ فراہم کرنا شامل تھا۔ اس دوران بھی مسلم لیگ ن کے وفاقی وزراء کوئٹہ تشریف لائے اور مذاکرات کرنے کی کوشش کی اوریقین دہانی کرائی کہ ان کے مطالبات کو تسلیم کرکے ان پر عمل کیا جائے گا ۔

مگر مظاہرین نے احتجاج ختم نہ کیا اور آرمی چیف کی آمد کا مطالبہ کیا جس کے بعد پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ کوئٹہ تشریف لائے اور انہوں نے لواحقین سمیت ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور آرمی چیف کی یقین دہانی کے بعددھرناختم کیا گیا ۔ سوال یقینا سول حکومت پر ہی جاتی ہے کہ کیونکر عوام کا اعتماد اپنی سیاسی جماعتوں پر نہیں ہے اور خاص کر بلو چستان کی کسی بھی حکومت کے ساتھ ہزارہ کمیونٹی نے مذاکرات نہیں کئے ماسوائے مرکزی نمائندگان کے جو خود ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

مچھ واقعہ کے بعد دنیا کے دیگر ممالک میں رونما ہونے والی دہشت گردی اور وہاں کے حکمرانوں کی متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی تصاویر اور خبریں سوشل میڈیا پر زیادہ وائرل ہورہی ہیں اس سے عوام کا اپنے نظام اور حکمرانوں کے رویوں پر اعتماد کو واضح طور پر پرکھا جاسکتا ہے کہ عوام سوالات اٹھارہے ہیں کہ کاش ہمارے حکمران ایسے ہوتے۔ بہرحال ہمارے یہاں حکمران بھی دیگر ممالک کی جمہوریت اور مثالی حکمرانی کی مثالیں دیتے ہیں مگر عملاََ اس سے ہمارا نظام اور سیاسی رویے کوسوں دور ہیں۔

جس کی وجہ سے آج عوام اور سیاسی جماعتوں کے درمیان خلیج بڑھ چکا ہے ۔جس جمہوری نظام کو بچانے کیلئے آج زیادہ شور شراباکیاجارہا ہے تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انہی سیاسی جماعتوں نے شارٹ کٹ کے ذریعے ایک دوسرے کی حکومتوں کیخلاف سازشیں کرکے انہیں گھربھیجا جس سے ہمارا جمہوری نظام مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گیا ۔جب سیاسی جماعتیںصرف گروہی اور ذاتی مفادات کی سیاست کرینگی تو عوام کا اعتماد کہاں سے ان پر بحال ہوگا۔ افسوس کہ مچھ سانحہ کے فوری بعد وزیراعظم عمران خان کوئٹہ تشریف لے آتے تو ایک نئی تاریخ رقم ہوتی مگر موجودہ وزیراعظم نے بھی پہلے اپنے نمائندگان کو بھیجا۔

اور لواحقین سے دھرنا ختم کرکے میتوں کی تدفین کی درخواست کی مگرلواحقین سمیت دھرنا منتظمین نے مکمل انکار کرتے ہوئے وزیراعظم کی آمد کا مطالبہ کیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے ساتھ بھی ان کے مذاکرات ناکام ہوگئے۔ یہ تمام عوامل ہمیں ایک ہی بات کی طرف اشارہ دے رہے ہیں کہ ملک کو اندرون خانہ سیاسی طور پرمستحکم کرنے کی ضرورت ہے جس کے بغیر ہم چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔

کیونکہ جب اندرون خانہ سیاسی حوالے سے ملک میں استحکام آئے گا تو کسی بھی شرپسندی کامقابلہ بھرپور عوامی طاقت کے ذریعے کیاجائے گا اور عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کیلئے سیاسی قائدین کو اپنے رویوںمیں تبدیلی لانی ہوگی وگرنہ عوام آگے ہوگی اور سیاسی جماعتیں پیچھے رہ جائینگی جو کہ ملک کیلئے کسی طرح بھی فائدہ مند ثابت نہیںہوگا۔