وزیراعظم عمران خان کا مچھ سانحہ کیخلاف جاری دھرنے کے متعلق بیان انتہائی حیران کن ہے کہ وزیراعظم کی آمد سے میتوں کی تدفین کو مشروط کرنا غلط روایت ہے ۔اگراسی بیان کو ماضی کے تناظرمیں دیکھاجائے تو جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو وہ انتہائی جذباتی انداز میں حکومتوںکو ہدف بناتے ہوئے تنقید کرتے دکھائی دیتے رہے ہیں کہ حکمران اپنی کرپشن میں لگے ہوئے ہیں انہیں عوام کے درد کا کوئی احساس نہیں جبکہ ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے دوران بھی انہوں نے ان کی آمد اور ان سے ملاقات کی بات کی تھی کہ حکمرانوں کو اس دردوکرب کے موقع پر متاثرین کے درمیان ہونا چاہئے۔
اور ان کے درد کامداوا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہئے مگر جس طرح سے وزیراعظم نے گزشتہ روز اس طرح کے عمل کو بلیک میلنگ کا نام دیا یقینا اس کی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ہزارہ کمیونٹی کے احتجاج اور اُن کی آمد سے متعلق کہنا تھا کہ ہزارہ برادری میتیں دفنائینگے تو میں آج ہی جاؤں گا۔ آج میتیں دفنائیں ، میں گارنٹی دیتا ہوں کہ آج ہی کوئٹہ پہنچتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میرے دورے کو میتوں کے دفنانے سے مشروط کرنا مناسب نہیں۔ آج میتوں کو نہ دفنانے کی شرط مانی تو یہ غلط روایت قائم ہوجائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم آئیں تو لاشیں دفنائیں گے۔ ہزارہ برادری کے تمام مطالبے مان چکے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ سانحہ مچھ میں جاں بحق ہونے والوں کی تدفین کے لیے وزیر اعظم کی آمد کی شرط رکھنا مناسب نہیں،ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ پہلے وزیر اعظم آئیں پھر تدفین کریں گے، کسی بھی ملک کے وزیر اعظم کو اس طرح بلیک میل نہیں کیا جا سکتا۔عمران خان کا کہنا ہے کہ ہزارہ برادری کوہمیشہ ہدف بنایا جاتا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد ہزارہ کمیونٹی کوظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا۔مچھ واقعہ افسوسنا ک ہے۔
مزدوروں کو بیدردی سے قتل کیا گیا۔ بھارت پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کے درپے ہے۔فرقہ واریت پھیلانے کیلئے دشمن سازش کر رہا ہے۔ مچھ سانحہ ہوا تو وزیرداخلہ کو کوئٹہ جانے کی ہدایت کی۔ خفیہ اداروں نے حالیہ دنوں میں دشمن کی سازش کو ناکام بنا یا۔بہرحال اس بیان کے سیاق وسباق کو دیکھاجائے تو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے سیاسی قائدین کا بیانیہ کیا ہوتا ہے اور جب اقتدار میں آکر اہم عہدے پر فائز ہوجاتے ہیں پھر ان کے رویوںمیں کس طرح تبدیلی آتی ہے ،اس طرح کی روایات کو پہلے سیاستدانوں کو ترک کرنا ہوگا ۔
جو اپوزیشن میں رہتے ہوئے کسی بھی ایسے موقع کو ضائع ہونے نہیں دیتے جب انہیں حکومت کیخلاف تنقید کرنی پڑے مگر بدقسمتی سے یہ سیاسی کلچر پروان چڑھ چکا ہے اور اس کے ذمہ دار خود سیاسی جماعتیں ہیں جنہیں ملک کے حقیقی صورتحال اور عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں بلکہ گروہی وذاتی مفادات کی تکمیل اور اقتدار تک رسائی کیلئے وہ کسی بھی موقع کو ضائع ہونے نہیں دیتے اس لئے آج ہمارے جمہوری نظام پر سوال اٹھایا جاتا ہے اور یہ سوال عوام نہیں بلکہ خود یہی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پرالزام کے طور پر لگاتے دکھائی دیتے ہیں کہ کس طرح سے چور دروازے سے اقتدار تک پہنچنے کیلئے حکومتوں کو گرانے کیلئے سازشیں کرتے ہیں ۔
بہرحال یہ مسئلہ ایک تو انسانی جانوں کا ہے دوسرا سیکیورٹی کا معاملہ ہے جس پر وزیراعظم عمران خان کو سنجیدگی کے ساتھ اقدامات اٹھانے ہونگے کیونکہ کسی بھی حکمران کا کسی بھی سانحہ کی جگہ پر آمد اور ہمدردی اس کا پلس پوائنٹ ہوتا ہے جسے مثبت نگاہ سے دیکھاجاتا ہے اس کافیصلہ خود حکمران کرسکتے ہیں مگر عوام کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے دہشت گردی کے خاتمے کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، اس حوالے سے کمزوری وکوتاہی پر یقینا سوالات وتنقید ہر سطح پر کی جاسکتی ہے اور اسے سیاسی بنیادوں پر نہ لیتے ہوئے ملک وعوام کے وسیع ترمفاد میں دیکھتے ہوئے اہم وسخت فیصلے کرنے چاہئے تاکہ عوام کم ازکم امن کے ساتھ اپنی زندگی گزارسکیں جوگزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہوتے آرہے ہیں ۔