|

وقتِ اشاعت :   January 10 – 2021

تربت : آل پارٹیز کیچ کے زیراہتمام سرکٹ ہاؤس تربت میں منعقدہ قومی کانفرنس بعنوان ’’موجودہ صورتحال،درپیش چیلنجز اوران کاتدارک‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمن نے کہاکہ بلوچستان کوایک ایسے لیڈرکی ضرورت ہے جو اقتدار ومراعات ومفادات سے بالاترہوکر قومی سوچ کے تحت قوم کی قیادت کرے اور قوم کے حقوق کا سودانہ کرے۔

مگر سیاسی جماعتوں کاالمیہ یہی ہے کہ ان کی سوچ ایک مخصوص دائرہ سے باہرنہیں نکلتی، سیاسی کارکن زندگی بھر محنت کرے، جان جھوکوں میں ڈالے، جھنڈے پوسٹرلگائے،جلسہ جلوسوں میں نعرے لگائے مگر الیکشن میں ٹکٹ کسی سرمایہ داریازردار یامافیا کے لوگوں کوملتی ہے جونئی نئی پارٹی میں شامل ہو، اسپیشل نشستیں گھرکی بیگمات کوملتی ہیں، افسوس سے کہناپڑتاہے کہ نوجوانوں کی لاشوں سے تربت سے ڈیرہ بگٹی تک قبرستان آبادہیں۔

مگر لیڈروں کے دبئی، لندن اوردیگر ممالک میں ہوٹل قائم ہیں،زندگی ہم صرف کریں توانائیاں ہم لگائیں الیکشن کے وقت ایک سرمایہ دار آکر ٹکٹ لیکر کامیاب ہو، اس سے سیاسی ورکرمایوس ہوکر کنارہ کشی اختیارکرنے پرمجبورہے، جب سیاسی قیادت مفادات سے بالاترہوکر سوچے تو سیندک بھی محفوظ ہوگی ریکوڈک بھی، سوئی گیس،گوادر پورٹ، سی پیک میں بھی بلوچستان کوحصہ ملے گا ۔

اورساحل وسائل بھی ہمارے ہوں گے،باڑ بھی نہیں لگے اوربارڈر بھی بند نہیں ہوگا،ننگ وناموس کاتحفظ ہوگا اورسیاسی کارکن کوسیاست کرنے میں مزہ بھی آئے گا، مگر افسوس کہ کینیڈا میں ہماری ایک بہن قتل ہوئی سب خاموش ہیں ان کی سوچ وفکراپنی جگہ مگر وہ ہماری سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں ہماری ننگ وناموس ہیں لیکن سرمایہ دار، جاگیردار، منشیات فروشوں نے سیاسی جماعتوں کو اپنے قبضے میں لیاہواہے ۔

منشیات فروشوں نے نوجوانوں کو زندہ لاش بنایا ہواہے مگر ان کی سرپرستی سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے کرتے ہیں، آئیں منشیات اورنسل نوکے قاتلوں سے جنگ کریں، جمعیت علماء اسلام صوبہ بلوچستان کے نائب امیر خالد ولیدسیفی نے کہاکہ اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت یکجہتی ہے، قوم مختلف زنجیروں میں جھکڑی ہوئی ہے حالات کی سنگینی اورمشکلات کومدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی پوری قوت اور طاقت کویکجا کرنے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ملک کوکبھی بھی آئین کی روشنی میں نہیں چلایاگیا جس سے مسائل نے جنم لیاہے، ملک میں مختلف ادوار میں تحریکیں چلی ہیں، اے آرڈی، ایم آرڈی، پی این اے ودیگر پی ڈی ایم کی موجودہ تحریک بحالی جمہوریت کی اصل تحریک ہے کیونکہ سابقہ ادوارمیں مارشل لاء کے خلاف تحریکیں جنم لے چکی ہیں یہ پہلی تحریک ہے جس کی بنیادی مقصد یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کاخاتمہ ہو، پی ڈی ایم کی تحریک نے پوری قوم کوزبان دی ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں 2طرز فکر ہیں ایک مزاحمتی طرز فکرہے اس کا اپنا بیانیہ ہے جسے جواز بلوچستان کی محرومیوں نے فراہم کی ہے اس وقت یہ تحریک اپنے سیکنڈفیزمیں ہے جبکہ دوسری طرزفکر سیاسی جماعتیں ہیں جوسسٹم کے اندر رہ کر جدوجہدکے حامی ہیں مگر افسوس کہ پاکستان کے منظرنامہ میں نہ بلوچستان بحیثیت صوبہ موجودہے اورنہ بلوچ قوم بحیثیت قوم موجودہے۔

نیشنل پارٹی کے مرکزی فنانس سیکرٹری سابق چیئرمین ضلع کونسل کیچ حاجی فداحسین دشتی نے کہاکہ بلوچستان میں مزاحمتی جنگ کو جوازبناکر فورسز کوتعینات کیاگیامگر اب فورسزکی تعداد اب بھی روزافزوں بڑھائی جارہی ہے ہر10کلومیٹر کے فاصلے پر چیک پوسٹیں قائم ہیں، بارڈر بندکردی گئی ہے، 4Gبندہے، گوادرباڑ میں ہے، انہوں نے کہاکہ فورسز اورچیک پوسٹیں بلوچستان کے مسئلہ کا حل نہیں ہیں اس سے نفرتیں اوربے چینی بڑھے گی۔

بلوچستان کے مسئلہ کاحل سیاسی ڈائیلاگ ہے، ڈاکٹرمالک بلوچ اورنیشنل پارٹی کی واضح پالیسی ہے کہ سیاسی ڈائیلاگ کے بغیر بلوچستان کے مسئلہ کاحل ممکن نہیں، انہوں نے کہاکہ سی پیک کے بڑے چرچے ہیں مگر اس میں کتنے بلوچوں کوروزگار ملاہے، بلوچستان کے ایشوزپر بلوچ پارٹیوں کومتحدہونا چاہیے، اب ظلم کی انتہاہے کہ بلوچ کو خود اپنے لئے روزی روٹی تلاش کرنے کاموقع بھی نہیں دیاجارہاہے بارڈر بندکردیاگیاہے۔

پی ڈی ایم نے لوگوں کی زبانیں کھلوائی ہیں، اب لوگ بات کرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کامعاملہ اہم ایشوہے،جزائر، گوادر باڑ، بارڈر بندش سمیت دیگرایشوزپرمشترکہ جدوجہدکی ضرورت ہے، بی این پی عوامی کے مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری سعید فیض بلوچ نے کہاکہ بلوچ کاسب سے بڑا سلوگن حق حاکمیت ہے بلوچ اپنی سرزمین اورحق حاکمیت کے دفاع کیلئے مصروف جہدہے۔

اس جدوجہد میں میریوسف عزیزمگسی سے لیکر کریمہ بلوچ تک بلوچ اکابرین وسیاسی کارکنان نے اپنی جانیں وقف کی ہیں بلوچ کی جدوجہد جاری ہے انور ساجدی کی شکل میں بلوچ قلم کار اپنے قلم کو زبان دیتا ہے، بلوچ دانشور سوچتا ہے،بلوچ سیاسی کارکن متحرک ہے، انہوں نے کہاکہ مکران کو غیرسیاسی بنایاجارہاہے یس مین اورجی حضور لائے جارہے ہیں انتخابی سسٹم کوہائی جیک کرلیاگیاہے۔

انہوں نے کہاکہ ایک سوچ وفکر کی حامل جماعتیں کیوں متحداورباہم ضم نہیں ہوتیں اس لئے کہ ہرایک کواپنی لیڈری اورسیٹ کی فکر لاحق ہے انہوں نے کہاکہ بلوچستان بارکونسل نے گوادر باڑ کے مسئلہ پر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائرکیا جس پرہم بارکونسل کے شکرگزارہیں مگرہائی کورٹ نے فیصلہ نہیں دیا حالانکہ یہ انسانی حقوق پرقدغن اور غیرآئینی اقدام ہے۔

پاکستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئرنائب صدرمیر غفوراحمدبزنجونے کہاکہ مسائل کی وجہ ہماری نااتفاقی ہے ہم ظلم وزیادتیوں کی شکایت کرتے ہیں فریاد کرتے ہیں مگرمتحدنہیں ہوتے ہمیں شعور وآگہی اوراتحاد واتفاق کی طرف قدم بڑھانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہاکہ اس طرح کے کانفرنس اورسیمینارہر3مہینہ بعد ہونی چاہئیں تاکہ علاقہ میں سیاسی شعور وآگہی مزید پروان چڑھ سکے۔

انہوں نے کہاکہ مکران میں جمہوری سسٹم کاآغاز 1960ء کی دہائی سے ہواہے یہاں کے لوگ ایک جمہوری سیاسی سوچ رکھتے ہیں، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سنیئرجوائنٹ سیکرٹری میرنزیر احمدنے کہاکہ چیلنجز اورمشکلات ہمارے لئے نئے نہیں ہیں جبری الحاق کے ساتھ ہی ہمارے ساتھ مشکلات کاسلسلہ شروع ہوگیاہے، ہمارے پاس 720کلومیٹر طویل گرم ساحل ہے۔

معدنی دولت سے مالامال سرزمین ہے مگراس کے باوجود ہماری زندگی کیوں مشکل بنادی گئی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری نااتفاقی ومنتشرہونا ہے، ہم سال کے12مہینہ احتجاج پرہیں،مائیں بہنیں احتجاج پرہیں طلباء احتجاج پرہیں،ہمارے ساحل وسائل محفوظ نہیں، ننگ وناموس محفوظ نہیں بلوچ فرزند دیارغیرمیں بھی محفوظ نہیں ہیں،آج پنجگورسے آتے ہوئے مجھے 10جگہ پوچھاگیا کہاں سے آرہے۔

ہو اورکہاں جارہے ہو، سی پیک کے نام پر پاکستان میں موٹرویز اور بڑی سڑکوں کاجال بچھایا گیا یونیورسٹی واعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کئے گئے مگرہمارے لئے سی پیک کے مدمیں باڑ لگایاجارہاہے کیونکہ انہیں ہماری ضرورت نہیں ہماری سرزمین کی ضرورت ہے انہوں نے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ کاراستہ روکنے کیلئے متحدہونا ہے انہوں نے کہاکہ اگلی قومی کانفرنس پنجگور میں منعقدکی جائے گی جس میں آپ کومدعوکیاجائے گا، مرکزی جمعیت اہل حدیث بلوچستان کے قائم مقام جنرل سیکرٹری مولانا زکریا نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ عوام اورریاست کے۔

درمیان اعتماد کارشتہ کمزورہونے کے باعث برمش اور حیات بلوچ جیسے سانحات جنم لے رہے ہیں، آئین پاکستان عوام اور ریاست کے درمیان ایک عمرانی معائدہ ہے مگر آئین کوہمیشہ پامال کیاگیا، انہوں نے کہاکہ سی پیک سے پوری دنیانے امیدیں وابستہ کی ہیں مگریہاں کے لوگ اس سے محروم ہیں بلکہ سی پیک سے لوگوں کیلئے مشکلات پیداکئے جارہے ہیں جگہ جگہ ناکے اورچیک پوسٹیں لگادی گئی ہیں۔

بارڈر روزگار کاایک ذریعہ ہے اسے بھی چھین لیاگیاہے ذرائع معاش بندکرنے سے معاشرے میں بے چینی اوربدامنی جنم لیتی ہے، انہوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتاجب تک وہ اپنی حالت بدلنے کی خودکوشش نہ کرے، انہوں نے ڈاکٹرمالک بلوچ کوتربت شہرکوترقی دینے پر شاباش پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے حکمرانوں کو بھی دعوؤں کے بجائے عمل کے میدان میں آنا ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے سنیئرنائب صدر، پاکستان بیت المال کے سابق صوبائی چیئرمین میر عطاء اللہ محمدزئی نے کہاکہ پاکستان پر شروع سے ایک مخصوص مائنڈ سیٹ حکمرانی کرتی آرہی ہے،جس سے ملک میں کبھی بھی حقیقی جمہوری نظام قائم نہیں ہوسکی، عوامی رائے پر شب خون مارنے کے سبب عوام میں ہمیشہ بے چینی پائی جاتی رہی،پی ڈی ایم کی تحریک عوام کے ووٹوں کی تقدس کی بحالی اورحقیقی جمہوری نظام کے قیام کیلئے ہے۔

وسائل ہمارے ہیں ٹیکس ہمارے ہیں اس کے باوجود بندوقوں کارخ بھی ہماری طرف ہے انہوں نے کہاکہ اب ٹھپہ ماری سسٹم نہیں چلنے دی جائے گی، کیچ بار ایسوسی ایشن کے صدرناظم الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ سی پیک کے اثرات بلوچ پرفائدہ سے نقصانات زیادہ ہیں، اس سے خطے میں ڈیموگرافک تبدیلی آئے گی، گوادر باڑ سے شہری متاثرہوں گے، پورے بلوچستان کوعملاً ایک جیل خانہ بنادیاگیاہے۔

گھرسے نکلنے پرعزت نفس مجروح کرنا معمول بن چکا ہے جہاں جاؤ یہ پوچھاجاتاہے کہ کہاں سے آرہے کہاں جارہے ہو؟ امن سب چاہتے ہیں مگرامن کے نام پر شہریوں کی تذلیل نہ کی جائے وسائل قبضے میں ہیں سیندک میں لوٹ مار ہے کوئی حساب کتاب نہیں سیندک کی پیداوار اب اختتام کے قریب ہے لسبیلہ دودر میں کسی کوجانے نہیں دیاجاتا یہ بھی نہیں بتایاجاتاکہ یہاں کتنی معدنیات نکلتی ہے۔

کیچ سول سوسائٹی کے کنوینر التازسخی نے کہاکہ قومی تشکیل اور قومی شناخت کی باتیں توکی جاتی ہیں مگر قوم کی تربیت کسی نے نہیں کی، قومی تشکیل نیشنل اسٹیٹ میں ممکن ہوتی ہے، بلوچ کو پسماندہ رکھاگیا، 20سال پہلے جوباتیں کی جاتی رہیں آج بھی وہی باتیں ہیں، دنیا مفادات کی بنیادپر چلتی ہے ہمیں قوم کوتعلیم یافتہ بنانا ہے معاشی پلان دینا ہے قومی تشکیل سے پہلے قوم کی معیشت پرتوجہ کی ضرورت ہے۔

لوگ نان شبینہ کے محتاج ہیں، ہم قومی مفادات کے بجائے سیاسی مفادات کوترجیح دیتے ہیں،یہ سرزمین وسائل کی سرزمین ہے 720کلومیٹرطویل ساحل ہے مگر ہمارے لوگ بھوک سے مررہے ہیں قومی اسٹیج پر جمہوریت کارونا رویا جاتاہے جمہوریت کب سے ہمارامسئلہ بناہے، بلوچستان بارکونسل کے رکن راحب خان بلیدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ مکران نے ہمیشہ بلوچستان کی سیاست میں ہراول دستہ کاکردار اداکیا۔

یہ خطہ ہمیشہ حب الوطنی اور قوم پرستی کی سیاست سے جڑی رہی ہے مکران جاگتاہے تواس کے اثرات بلوچستان بھرمیں محسوس کئے جاتے ہیں، انہوں نے کہاکہ سی پیک کے نام پر اربوں روپے خرچ کئے گئے مگرہمارے حصہ میں اب بھی وہی محرومیاں ہیں معاشی انقلاب کے بجائے ہمارے لئے چیک پوسٹیں، ناکے اورباڑ ہیں انہوں نے کہاکہ کریمہ بلوچ کے ایشوکو دبانے کیلئے ہزارہ برادری کے مزدوروں کو ذبح کرایاگیا ۔

انہوں نے کہاکہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ججز اورجرنیلوں کابھی احتساب کیاجائے، آل پارٹیزکے کنوینر غلام یاسین بلوچ نے کامیاب پروگرام کے انعقاد پر مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ قومی کانفرنس سیاسی جمود کو توڑنے اور سیاسی جماعتوں کے درمیاں حائل دوریوں کے سدباب کا زریعہ بنے گا۔

پروگرام میں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض بی این پی عوامی کے ضلعی صدر کامریڈ ظریف ذدگ نے انجام دیے جبکہ پی این پی عوامی کے مرکزی رہنما خان محمد جان نے قرارداد پیش کر کے شرکاء سے اس کی منظوری حاصل کی۔