سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ مستقل طور پر بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا تشدد پر مزید اکسانے جانے کے خطرے کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی جانے والی حالیہ ٹوئٹس اور سیاق و سباق کا بغور جائزہ لینے کے بعد کیا گیا ہے۔پہلے صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ 12 گھنٹوں کے لیے لاک کیا گیا تھااس موقع پر ٹوئٹر کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اگر ٹرمپ کی جانب سے اس پلیٹ فارم کے قواعد کی پھر سے خلاف ورزی کی گئی تو ان پر یہ پابندی مستقل طور پر عائد کر دی جائے گی۔
بدھ کے روز صدر ٹرمپ کی جانب سے متعدد ٹوئٹس کی گئی تھیں جن میں انھوں نے کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے والے لوگوں کو محبِ وطن کہہ کر پکارا تھا۔جمعرات کو فیس بک نے کہا تھا کہ وہ غیر معینہ مدت تک کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ معطل کر رہی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کے اگلے ہی روز ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اقتدار کی منظم منتقلی کے عمل کے لیے پرعزم ہیں تاہم ان کے مخالفین ان کی مدتِ صدارت مکمل ہونے سے قبل ہی انھیں ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔صدر ٹرمپ کا یہ بیان ٹوئٹر پر شائع کیا گیا۔
اور اسے ان کی جانب سے عوامی سطح پر انتخابی شکست تسلیم کرنے کا پہلا اظہار سمجھا جا رہا ہے۔امریکی صدر کی جانب سے یہ بات ایک ایسے وقت کی گئی ہے جب ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے انہیں مدت ختم ہونے سے قبل ہی صدارت سے ہٹانے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔بدھ کو جو بائیڈن کی صدارتی انتخاب میں کامیابی کی توثیق کے موقع پر صدر ٹرمپ کے حامی یو ایس کیپیٹل کی عمارت میں گھس گئے تھے اور وہاں ہنگامہ آرائی کے دوران اب تک پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے جن میں سے ایک خاتون پولیس کی گولی لگنے سے ہلاک ہوئی۔
جبکہ اس واقعے میں زخمی ہونے والا ایک اہلکار ہسپتال میں ہلاک ہوا جبکہ تین افراد ہنگامہ آرائی کے دوران طبی وجوہات کی وجہ سے جان سے گئے۔جمعرات کی شام ٹوئٹر پر اپنے ویڈیو پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب جبکہ کانگریس نے انتخابی نتائج کی تصدیق کر دی ہے، نئی انتظامیہ 20 جنوری کو اپنا کام سنبھال لے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں اب میری توجہ اقتدار کی بلارکاوٹ اور منظم طریقے سے منتقلی پر ہے اور مفاہمت اس وقت کی ضرورت ہے۔صدر ٹرمپ نے اپنے پیغام میں ووٹر فراڈ کے بارے میں اپنے بے بنیاد دعوؤں کا ذکر نہیں کیا ۔
جو بدھ کو ان کے حامیوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی کی وجہ بنے تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے ہنگامہ آرائی کے بعد فوراً نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے احکامات دے دیے تھے تاہم کچھ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق انہوں نے اس سلسلے میں ہچکچاہٹ دکھائی تھی جس پر نائب صدر کی جانب سے یہ احکامات دیے گئے تھے۔امریکی صدر کا یہ پیغام ان کی جانب سے باقاعدہ انتخابی شکست تسلیم کرنے سے نزدیک ترین چیز ہے۔ اس سے قبل وہ یہی کہتے رہے ہیں کہ وہ صدارتی انتخاب جیت چکے ہیں اور نومبر میں انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ جو بائیڈن کی الیکشن میں فتح کی وجہ انتخاب میں دھاندلی ہونا تھی۔
بدھ کو کانگریس کے مشترکہ اجلاس کے دوران کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے اور ہنگامہ آرائی کے بعد اب تک 68 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔اس وقت پولیس کی جانب سے صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر بہت تنقید کی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پولیس اس پرتشدد ہنگامہ آرائی کو روکنے میں ناکام ہوئی۔ادھر کیپیٹل کی پولیس، یو ایس سی پی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ان کے افسران نے مجرمانہ انداز میں کیے جانے والے فساد کا سامنا کیا۔امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کے کابینہ کے بعض ارکان اس پُرتشدد واقعہ کے بعد مستعفی ہوچکے ہیں۔
البتہ ٹرمپ کے ٹوئٹ اور تشدد کے واقعہ کے بعد امریکی جمہوریت پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں کیونکہ جوبائیڈن کی انتخابی عمل میںجیت کی توثیق کے دوران یہ تمام ترصورتحال پیدا ہوئی۔ جس ملک کی جمہوری عمل کی مثال دی جاتی ہے اب وہاں پر بھی جمہور کی رائے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے تشدد کا راستہ اپنایاجارہا ہے جو مستقبل میں امریکہ کے جمہوری عمل کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے مگر جس طرح سے امریکی حکام نے اس ہنگامی صورتحال کے دوران ذمہ داری کے ساتھ کام کیا اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حکومتی عہدوں پر فائز افراد بھی اپنے ملک میں غیرجمہوری عمل کو کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔
اور اسے مستقبل کیلئے خطرہ سمجھتے ہوئے ملک کے وسیع ترمفاد میںفیصلہ کرتے ہوئے مستعفی ہوئے ہیں جواس بات کی واضح مثال ہے کہ اب تک امریکہ میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کیلئے سیاست سے بالاتر ہوکر ملک کے وسیع ترمفاد میں سوچ رکھنے والی شخصیات موجود ہیں جنہیں فرد سے زیادہ سے ملک اور عوام کی رائے عزیز ہے۔