|

وقتِ اشاعت :   January 12 – 2021

ملک میں ماضی کی نسبت دہشتگردی کے واقعات خاص کر شدت پسندوں کے حملوں میں بہت کمی آئی ہے جس طرح پہلے ملک کو اندرون خانہ دہشتگردی و شرپسندی کا سامنا رہا ہے اس کی شرح صفر ہوکر رہ گئی ہے، ایک دو واقعات کو دہشتگردی کی صورتحال سے جوڑنا زیادتی ہے۔ جہاں تک نیشنل ایکشن پلان کی بات ہے تو اس میں بھی بڑی کامیابیاں ملی ہیں اور ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوچکی ہے۔ گزشتہ روز پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے جی ایچ کیو میں میڈیا بریفنگ کے دوران بہت سے معاملات پر واضح موقف رکھتے ہوئے سیکیورٹی سمیت دیگر معاملات پر کھل کر بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان میں کوئی بھی منظم دہشتگرد انفرا اسٹرکچر ماضی کی طرح موجود نہیں ہے۔ آپ کو بلانے کا مقصد تقریباً ایک دہائی کے چیلنجز اور مختلف امور سے متعلق میڈیا کو آگاہی فراہم کرنا ہے۔ فوج کو سیاسی معاملات میں نہ آنے کی ضرورت ہے، نہ گھیسٹنے کی کوشش کرنی چاہیے، کسی سے کوئی بیک ڈور رابطے نہیں، ہمیں اس معاملے سے دور رکھا جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ جس نوعیت کے الزامات لگائے جارہے ہیں ان میں کوئی وزن نہیں، حکومت وقت نے فوج کو الیکشن کرانے کی ذمہ داری سونپی، فوج نے پوری ذمہ داری اور دیانتداری سے الیکشن کرائے۔

پھر بھی کوئی شک ہے تو متعلقہ اداروں سے رجوع کیا جائے، الزامات لگانا اچھی بات نہیں ،فوج حکومت کا ذیلی ادارہ ہے،حکومت تمام الزامات کا بہتر انداز میں جواب دے رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلی دہائی میں ایک طرف مشرقی سرحد اور لائن آف کنٹرول پر ہندوستان کی شرانگیزیاں جاری تھیں تو دوسری جانب مغربی سرحد پر کالعدم دہشتگرد تنظیموں ، ان کے جوڑ توڑ اور پشت پناہی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جا رہا تھا۔ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ تمام تر چیلنجز کے باوجود تمام اداروں اور پوری قوم نے متحد ہو کر مشکلات کا سامنا کیا۔

اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں سرخرو کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی سرحد پر قبائلی علاقوں میں امن و امان بحال کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں سماجی و معاشی اقدامات کا آغاز کیا جا چکا ہے، پاک افغان اور پاک ایران سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے مربوط اقدامات کیے گئے اور دہشتگردی کے خلاف کامیاب آپریشنز کے نتیجے میں ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال بہت بہتر رہی۔ بہرحال سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی پہلی بار نہیں ہے ماضی میں بھی حکومتوں اوراپوزیشن کے درمیان کھینچا تانی رہی ہے اور الزامات بھی اسی طرح ہی لگائے گئے ہیں لہذا اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کی بجائے سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں آکر اپنا بیانیہ پیش کریں ۔

اور ان کے حکومتی اقدامات کے حوالے سے جو بھی تحفظات ہیں ان کی نشاندہی اسی فورم پر بہتر انداز میں کیا جاسکتا ہے، بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے سب کو ایک پیج پر ہونا چاہئے کیونکہ سیاسی عدم استحکام سے دشمن ملک فائدہ اٹھاسکتا ہے لہذا اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے مقابلے کیلئے کردار ادا کرنے کا وقت ہے اس عمل سے معاشی و سیاسی بحرانات سے نکلا جاسکتا ہے۔