جو بائیڈن نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا اور وہ امریکا کے 46 ویں صدر بن گئے۔حلف اٹھانے کے بعد قوم سے پہلے خطاب میں امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ امریکا کا دن ہے، یہ جمہوریت کا دن ہے، ہم ایک امیدوار نہیں بلکہ ایک مقصد کی کامیابی منا رہے ہیں، میں امریکی آئین کی طاقت پر یقین رکھتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ا مریکی قوم عظیم ہے، ہمیں بہت کچھ درست کرنا ہے، بہت سے زخموں پر مرہم رکھنا ہے، نسلی امتیاز کے خاتمے کا خواب اب مزید ٹالا نہیں جا سکتا، میری روح قومی اتحاد اور نسلی اتحاد کے مقصد سے جڑی ہے۔
جانتا ہوں ہمیں تقسیم کرنے والی طاقتیں گہری ہیں اورحقیقت رکھتی ہیں۔جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ ماضی کی طرح آج بھی ہم سب مل کر امن کو ممکن بنا سکتے ہیں، ہمیں آج حقیقی معنوں میں متحدہ ریاست ہائے امریکا بننا ہوگا، اختلافات بغیر لڑائی، تشدد کے حل کیے جا سکتے ہیں۔قوم سے خطاب میں نئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون نائب صدر بنی ہیں، مجھے اب امریکا اور امریکی قوم کو متحد کرنا ہے، ہمیں مل کر مہلک وائرس کا خاتمہ کرنا ہے، ہمیں سفیدفام نسلی امتیاز اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے۔
اپنی روح کی گہرائیوں سے امریکا کو دوبارہ سے متحد بنانے کا کام کروں گا۔اپنے مخالفین کے حوالے سے جوبائیڈن نے کہا کہ جو میرے خلاف ہیں، ان سے کہناچاہتاہوں مجھ سے بات کریں، پھربھی مجھ سے اختلاف ہو تویاد رکھیں یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے، یقین دلاتاہوں میں سب کاصدر ہوں ۔ ہم جمہوریت کی بنیادوں اور اتحاد کی بحالی کیلئے کام کریں گے، ہر امریکی کا فرض ہے جھوٹ کے بجائے سچائی کا ساتھ دے، ہمیں مل کر امریکی قوم کے زخموں کو بھرنا ہے، ہمیں سرخ، نیلے، لبرل اور قدامت پسندوں میں خانہ جنگی ختم کرناہوگی۔
تب ہی ہمارا ملک مضبوط بنے گا، ہماری معیشت مضبوط ہوگی۔جوبائیڈن نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم سفیدفام انتہاپسندی، داخلی دہشت گردی اور وبا کے چیلنجز کا مقابلہ کریں گے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کا پہلا خطاب امریکہ کو اندرون خانہ درپیش چیلنج پر زیادہ مبنی تھا کیونکہ اس وقت امریکہ کو نسلی امتیاز سمیت دیگر چیلنجز کا سامنا ہے جو کہ امریکہ کیلئے مستقبل میں خطرے کا باعث بن سکتا ہے اس لئے انہوں نے اس بات پر زیادہ زور دیا کہ جمہوریت کو مستحکم کرتے ہوئے تقسیم اور تفرقہ کا خاتمہ کرنا ہے کیونکہ ٹرمپ کے دور میں نسل پرستی، قدامت پسندی کے متعلق واقعات نہ صرف رپورٹ ہوئے۔
بلکہ ان میں شدت بھی دیکھنے کو ملی۔ بہرحال امریکی صدرجوبائیڈن نے دہشت گردی کے متعلق بھی مثبت پیغام دیا ہے اور دنیا میں قیام امن کیلئے سب کے ساتھ ملکر کام کرنے کے عزم کااظہار کیا ہے جوکہ خوش آئندبات ہے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگی پالیسیوں کے باعث دنیا کے امن کو شدید خطرات لاحق ہوئے ہیں خاص کر مسلم ممالک اس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔امید یہی کی جاسکتی ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن سابقہ پالیسیوں کو ترک کرتے ہوئے افغان امن عمل سمیت دیگر مسلم ممالک کے اندر جو پراکسی وار جاری ہیں انہیں بھی ختم کرنے کے حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات اٹھائینگے تاکہ ایک طویل جنگ سے بیشتر ممالک نکل سکیں اور امن و ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔