|

وقتِ اشاعت :   January 27 – 2021

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے کریمہ بلوچ کی نماز جنازہ میں عام لوگوں کو شرکت کی اجازت نہ دینے اور تدفین کے موقع پر علاقے میں موبائل فون سروس کے بندش کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ سب کی بات سنی جائے،جب حکومت ایسے کام کرے گی تو نفرتیں بڑھیں گی۔

رکن اسمبلی سید احسان شاہ نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی تدفین میں رکاوٹ ڈالنے کی مزمت کرتا ہوں،تربت کی سیشن کورٹ نے حیات بلوچ کے قاتل کو سزائے موت دی،اس واقعہ سے اچھا پیغام گیاجبکہ صوبائی وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدی نے کہا کہ حکومت نے کینیڈا میں فوت ہونے والی بلوچ سیاسی رہنماء کریمہ بلوچ کی میت کو یہاں لانے کی اجازت دی اور تدفین کے لئے حفاظتی اقدامات بھی کئے۔

کچھ لوگ تاک میں رہتے ہیں کہ کوئی واقعہ ہو اور اس پرسیاست کریں ، اجلاس میںکورم پورا نہ ہونے سے سرکاری کارروائی دھری کی دھری رہ گئی صوبے میں بجلی کے مسئلے پر اراکین اسمبلی برہمی پر ڈپٹی اسپیکر نے کیسکو چیف کو 28جنوری کو اپنے چیمبر میں طلب کرلیا۔منگل کے روز بلوچستان اسمبلی کااجلاس ایک گھٹنے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سرداربابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا،اجلاس میں بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے کہاکہ بلوچستان روایات۔

صبر،برداشت ،امن وآتشی کا گہوارہ رہاہے یہاں لوگوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کی ہے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی ہے انگریز کے دور میں بھی کسی مخالف کے لاش کی بے حرمتی نہیں کی گئی کہ جس سے لوگوں کے دل ودماغ میں نفرتیں پیدا ہوں ،انہوں نے کہاکہ بلوچستان کا وفاق کے ساتھ وحدت کارشتہ ہے مگر اس کے باوجود نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ جو ہوا آج تک لوگوں کو معلوم نہیں کہ اس تابوت میں کون تھا ؟

انہوں نے کہاکہ کریمہ بلوچ کا واقعہ کینڈا میں ہوا اس کے نظریات اور جدوجہد سے اختلاف کیاجاسکتاہے مگر ایک عورت کی لاش جب تدفین کیلئے بلوچستان لائی جارہی تھی تو ریاست کو دل اور گردہ بڑا کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کو سہولیات فراہم کرنی چاہیے تھی مگر افسوس کہ میت کی منتقلی اور تدفین میں رکاوٹیں ڈالی گئی لوگوں کے راستے اور موبائل نیٹ ورک بند کردئیے گئے ۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان پالیسی ساز اداروں کو بتاناچاہتے ہیں کہ انہیں جو یہ مشورے دے رہے ہیں ان سے وہ صوبے کے لوگوں کے دل ودماغ کو جیتنے کی بجائے نفرتوں میں اضافہ کررہے ہیں انہوں نے کہاکہ جمہوریت اور کثیر القومی ریاست کی خوبصورتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی بھی رائے سنیں انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی تاریخ میں ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ یہاں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 10افراد کی میتیں 6روز تک سخت سردی میں پڑی رہی لیکن حکومت ان کو عزت نہیں دے سکی ۔

انہوں نے کہاکہ ملک کانظریہ جمہوریت ،انسانی حقوق کے نظریاتی ہمیں نفرت نہیں سکھاتی ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں جو دیمی آگ لگی ہوئی ہے اور جو خون ریزی ہورہی ہے اس کاخاتمہ ہوناچاہیے مگر ہر دوسرے دن غفلت کامظاہرہ کرکے ان میں اضافہ کیاجاتاہے ،بی این پی کے شکیلہ نوید دہوار نے کہاکہ کریمہ بلوچ کی جسدخاکی کو کینڈا سے منتقلی کے وقت میں خود ائیرپورٹ پرموجود اور تمام صورتحال کی گواہ ہوں ۔

کریمہ کی میت کو 4گھنٹوں بعد صبح7بجے لواحقین کے حوالے کیاگیا اس دوران شہریوں کے ائیرپورٹ میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی اوربعدازاں میت کوسیکورٹی حصار میں آبائی علاقے منتقل کیاگیا انہوں نے کہاکہ کریمہ بلوچ نے مر کر بھی مقابلہ کیا آج پورے صوبے میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے اور لوگ انہیں خراج تحسین پیش کررہے ہیں ۔

اس سے قبل ان کی دو بہنیں اور بہنوئی کبھی کارگو اور کبھی ٹرمینل کے چکر لگوائے گئے ایک میت کے ساتھ اتنا کچھ ہوسکتاہے اور زندہ لوگوں کے ساتھ کیاکچھ نہیں ہوسکتا،انہوں نے کہاکہ بلوچستان اسمبلی کے ایم پی اے لاجز میں واقع میری رہائش گاہ کے تالے توڑے گئے اور شواہد بھی کچھ نہیں ملے ۔جمعیت علماء اسلام کے رکن اصغر علی ترین نے کہاکہ ہم کئی مرتبہ اس فلور پر عوامی مسائل کی نشاندہی کرتے آئے ہیں۔

تاہم کوئی شنوائی نہیں ہوئی بلوچستان کے لوگ سردیوں میں گیس اور گرمی میں بجلی کیلئے تڑپتے ہیں سخت سردی میں نہ تو گیس ہے اور نہ ہی بجلی ہے جب ہم نے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ بلوچستان حکومت واپڈا کی مقروض ہے ،انہوں نے کہاکہ میرے حلقے میں 48گھنٹوں میں صرف 6گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے یہ کیفیت اگر تربت اور لسبیلہ میں ہوتی تو حکومت اتنی ہی مطمئن رہتی انہوں نے کہاکہ عوامی نوعیت کے مسائل حل نہ ہوئے تو ہم سول سیکرٹریٹ کے سامنے دھرنا دیںگے ،وفاقی ادارے چوہدری بن کر بیٹھے ہیں کسی کو ملاقات کیلئے وقت تک نہیں دیتے مگر ان کی کارکردگی صفر ہے۔

بلوچستان حکومت بجلی اور گیس کے مسئلے کو سنجیدہ لیتے ہوئے اسلام آباد جا کر رابطہ کریں ۔وزیراعلیٰ کی پارلیمانی سیکرٹری مبین خلجی نے کہاکہ کوئٹہ میں گیس کی نئی لائنیں بچھائی جارہی ہے بجلی کے مسئلے پر میں نے کیسکو اور محکمہ انرجی کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں تاہم ان کا موقف ہے کہ سرکاری دفاتر ان کے مقروض ہیں بلکہ اوور بلنگ بھی ہورہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ حکومت نے 2ارب روپے کی ادائیگی کی ہے تاہم اب کیسکو اور محکمہ انرجی کامطالبہ ہے کہ 5ارب روپے کی مزید ادائیگی کی جائیں ۔انہوں نے تجویز دی کہ ڈپٹی اسپیکر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی جائے جو وفاقی حکومت سے رابطہ کریں ۔جمعیت علماء اسلام کے رکن اصغرترین نے کہاکہ سیندک اور گوادر میں باڑ لگانے کے معاملے پر بھی کمیٹیاں بنائی گئی۔

لیکن ان سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی جب تک حکومت نیت صاف کرکے کام نہیں کرتی معاملات حل نہیں ہونگے لہٰذا کیسکو کو بقایاجات کی ادائیگی یقینی بنائی جائیں جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر بابر موسیٰ خیل نے کل تین بجے کیسکو چیف کو اسمبلی طلب کرلیا۔عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہاکہ آج سے پندرہ سال قبل خان عبدالولی خان وفات پا گئے تھے ہمارے لئے یہ سال بہت اہم ہے ۔

کیونکہ باچاخان نے خطے کی آزادی کی جو تحریک شروع کی اس کے 100سال امسال مکمل ہوںگے ،باچاخان ،خان عبدالولی خان صرف پشتون نہیں بلکہ تمام محکوم اقوام کے رہبر تھے ان کاکردار کسی سے ڈھکا چھپانہیں اور مخالفین بھی ان کے کردار کے معترف رہے ہیں خان عبدالولی خان نے 1973ء کے آئین کی تشکیل میں بھی بہترین کردار ادا کیا انہوں نے مظلوم ومحکوم اقوام کیلئے جو قربانیاں دیں وہ تاریخ میں محفوظ ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے اکابرین پر ان کے دشمن بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے تھے باچاخان اور خان عبدالولی خان کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایوان میں اجتماعی دعا کروائی جائیں ۔ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن اسمبلی قادر علی نائل نے کہاکہ یقینا باچاخان اور خان عبدالولی خان جیسے اکابرین کا کردار روزروشن کی طرح عیاں ہے ہزارہ برادری پر بھی جنوری کا مہینہ انتہائی سخت گزرا ہے انہوں نے کہاکہ باچاخان اور خان عبدالولی خان سمیت ہزارہ برادری کے شہداء اور عمائدین کیلئے بھی دعا کی جائے ۔

جس پر ایوان میں اجتماعی دعا کرائی گئی ۔بی این پی کے رکن اسمبلی اخترحسین لانگو نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ کریمہ بلوچ کی لاش کے ساتھ جو سلوک کیاگیا وہ قابل مذمت ہے بانک کریمہ اور نواب اکبر خان بگٹی کی میتوں کے ساتھ کیاجانے والا سلوک،کرفیو لگانا لوگوں کور وکنا ریاست کے ساتھ خیر خواہی نہیں بلکہ دشمنی ہے آج ملک بھر میں بانک کریمہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے۔

جو عمل گزشتہ دو روز تک کیاگیا اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا انہوں نے کہاکہ سانحہ توتک اور صفورا میں جو لوگ ملوث تھے انہیں حکومت نے گزشتہ مالی سال میں 45جبکہ رواں مالی سال میں 50کروڑ روپے کی ترقیاتی اسکیمات دی ہیں جبکہ وڈھ کے منتخب نمائندے کو صرف 8کروڑ روپے کی اسکیمات بجٹ میں دی گئی یہ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔

پاکستان نیشنل پارٹی (عوامی ) کے سربراہ ورکن صوبائی اسمبلی سید احسان شاہ نے بانک کریمہ بلوچ کی جنازہ میں رکاوٹ کو قابل افسوس قراردیتے ہوئے کہاکہ بانک کریمہ کا تعلق میرا حلقہ انتخاب تمپ سے تھا وہ بلوچستان کی بچی تھی ان کی میت سے حکومت نہ جانے کیوں خائف تھی ان کی نماز جنازہ میں رکاوٹ ڈالنا ہماری روایات کی منافی ہے نماز جنازہ میں شرکت سے مسلمانوں کو اجر وثواب ملتاہے۔

نہ جانے ہمارے حکمرانوں کو بانک کریمہ کی لاش سے کیا خطرہ لاحق ہے جس کی میں مذمت کرتاہوں انہوں نے کہاکہ جب ایک ایف سی اہلکار نے حیات بلوچ کو قتل کیا تو میں گوادر میں تھا میں فوری طورپر تربت پہنچا لیکن میرے پہنچنے سے قبل وہاں کے ایف سی کمانڈنٹ نے مثبت رویہ اپناتے ہوئے اس ایف سی اہلکار کی ملازمت ختم کردی اور اسے پولیس کے حوالے کردیا۔گزشتہ دنوں مذکورہ ایف سی اہلکار کو سیشن کورٹ سے سزائے موت کی سزاملی جس سے حیات بلوچ کے ورثاء کو انصاف ملا اور اس واقعہ سے ایک اچھا تاثر گیا۔

انہوں نے اسپیکر سے اجازت مانگی کہ مجھے بہت کم بولنے کا موقع ملتاہے سید احسان شاہ نے کہاکہ اصغرخان اچکزئی نے ولی خان اور باچاخان کے نظریات کی بات کی یقینا اس وقت کے سیاسی ومذہبی حلقوں میں سیاست ایک سیمبل تھا باچاخان ،ولی خان ،مفتی محمود ،نواب غوث بخش بزنجو ،سردار عطاء اللہ مینگل ،خان عبدالصمد خان اچکزئی سمیت یہ وہ اکابرین تھے جن کو ہم ہمیشہ یاد رکھتے ہیں انہوں نے برصغیر میں انگریزوں کے خلاف جو جدوجہد کی وہ ہمیشہ یاد رکھاجائے گاسید احسان شاہ نے ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ ایک صحافی نے ولی خان سے انٹرویو کی فرمائش کی لیکن اس وقت ٹرین روانگی کاوقت آگیا۔

صحافی نے اپنا انٹرویو چلتے ٹرین میں شروع کیا اس دوران اس صحافی نے تعجب کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ سنگ مرمر کے پتھر کراچی کس لئے لے جائے جارہے ہیں حالانکہ لیبر بھی خیبرپشتونخوا(صوبہ سرحد) کا بجلی بھی صوبہ سرحد کی پھر کارخانے کیوں کراچی میں ؟ جس کے جواب میں ولی خان نے کہاکہ اگر یہ اعتراض میں کرتا تو مجھ پر فوراََ غداری کاالزام لگتا ۔

انہوں نے کہاکہ ایک سال قبل واپڈا کے لائن مین کیلئے ٹیسٹ انٹرویو ہوئے لیکن ابھی تک اس پرعملدرآمد نہیں ہوا سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی گئی لیکن واپڈا ٹھس سے مس نہیں ہورہی ۔

بی این پی کے رکن اسمبلی میر حمل کلمتی نے کہاکہ کریمہ بلوچ کی میت کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ باعث افسوس ہے ایسے واقعات سے نفرتوں میں اضافہ ہوگا بلوچستان میں پہلے ہی لوگوں پر روزگار کے دروازے بند کردئیے گئے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ نواب اکبر خان بگٹی کی میت کے ساتھ روا رکھے گئے رویہ نے بلوچستان میں لگے آگ پر تیل چھڑکا گیا ۔صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور احمد بلیدی نے کہاکہ تربت میں ڈکیتی کی واردات کے دوران خاتون کی شہادت ہوئی مقامی لوگوں نے موقع پرایک شخص کو دھیر لیا اور پولیس کے حوالے کردیا جبکہ دو لوگ وہاں سے فرار ہوگئے پولیس نے دوگھٹنے بعد فرار ہونے والے ایک شخص کو گرفتار کیا ۔

جبکہ واقعہ کا سرغنہ بھی کچھ دنوں بعد گرفتار ہوا اور ملزمان کو سزا بھی ہوئی ہے تربت میں ایک اور حادثے میں حیات بلوچ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا واقعہ کے ذمہ دار سیکورٹی اہلکار کو نہ صرف گرفتار کیاگیا بلکہ چند روز قبل مذکورہ اہلکار کو سزائے موت ہوئی ہے تاہم ان دونوں واقعات پر سیاست تو کی گئی مگر ملزمان کو سزا ہونے پر اور متاثرہ خاندان کو انصاف ملنے پر کسی ایک نے بیان تک جاری نہیں کیا۔

انہوں نے کہاکہ کریمہ بلوچ کا واقعہ کینڈا میں پیش آیا اور جب گزشتہ دنوں ان کی میت کینڈا سے پاکستان منتقل کی جارہی تھی تو ایک ماحول بنایاگیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ خدانخواستہ پاکستان نے وہاں جا کر یہ کارروائی کی ہے ،انہوں نے کہاکہ کریمہ بلوچ ہمارے لئے قابل احترام ہے ان کی لاش جب پاکستان منتقل کی گئی تو پتہ ہونے کے باوجود کہ ایک ماحول بنایاگیاہے کیا سیکورٹی انتظامات نہ کئے ۔

جاتے حکومت نے لاش کو اغواء کیا اور نہ ہی تحویل میں لیاہے نہ اس کے پیچھے کوئی اور ایجنڈا تھا ۔ہمارا مقصد لاش کو بحفاظت ان کے لواحقین تک پہنچانا تھا آیا حکومت نے ان کی میت باعزت طریقے سے تمپ منتقل کرکے کوئی گناہ کیا ۔انہوں نے کہاکہ کریمہ بلوچ کی تدفین ان کے اہل خانہ نے اپنی ہاتھوں سے کی اور وہاں تمپ کے مقامی لوگوں کے ساتھ خواتین بھی کثیر تعداد میں نماز جنازہ اور تدفین کے عمل میں شریک ہوئے۔

اور آج بلوچستان کے مختلف اضلاع میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی ہے حکومت نے کہیں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے کچھ لوگ اس طاق میں رہتے ہیں کہ خدانخواستہ کوئی واقعہ پیش آئے اور وہ اس پر سیاست کریں انہوں نے کہاکہ یہاں ایک معزز رکن نے انگریز وں سے لڑائی کا حوالہ دیا جس میں میرے دو بزرگ بھی شہید ہوئے ان کے لاشوں کے ساتھ جو کچھ ہوا تاریخ گواہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ میں یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ کہیں کوئی سکرپٹ پر تو عمل نہیں کیاجارہا ؟ کہیں سے ہدایات تو نہیں آرہے تاکہ امن وامان کا مسئلہ کھڑا کیاجائے انہوں نے کہاکہ جس ملک میں واقعہ ہوا وہاں پر ہمارا کوئی دسترس نہیں واقعہ کی تحقیقات ہورہی ہے رپورٹ سامنے آئی ہے تاہم اس سے پہلے عوام کی جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ میں تربت کے معروضی حقائق سے واقف ہوں وہاں کوئی قدغن نہیں لگائی گئی کریمہ بلوچ کے خاندان سے ہمیں ہمدردی ہے ہمارے افکار ونظریات میں اختلاف ہیں مگر وہ ہماری بہن تھیں اس صوبے کی عزت تھی ہم ان کے اہل خانہ کی قدر کرتے ہیں مگرلاشوں کی سیاست سے آگے بڑھ کر صوبے کی عوام کو راستہ دکھایاجائے اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ حقائق کو بیان کرتے ہوئے ذمہ دارانہ سیاست کرے نہ کہ لاشوں پر سیاست کی جائے ۔بی این پی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے کہاکہ حکومت غلط فیصلے نہ کرے کریمہ کے نظریات اور فکر سے اختلاف ضرور کیاجاسکتاہے۔

یہ کوئی سکرپٹ ہے اور نہ ہی ہم لاشوں پر سیاست کررہے ہیں ۔اجلاس میں نماز کے وقفے کے بعد وقفہ سوالات کے دوران اراکین اسمبلی نصراللہ زیرے ،زینت شاہوانی ،میر زابد ریکی کے سوالات کو نمٹا دئیے گئے جبکہ اختر حسین لانگو کا کیوڈی اے کی زمین شاہینہ کاکڑکے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات اسد خان اچکزئی کی اغواء سے متعلق توجہ دلائو نوٹسز پارلیمانی سیکرٹری مبین خلجی اور صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کی یقین دہانی کے بعد نمٹا دئیے گئے ۔

ابھی اجلاس جاری تھا کہ بی این پی کے رکن اسمبلی اخترحسین لانگو نے کورم کی نشاندہی کردی جس کے بعد ایوان میں کورم پورا نہ ہونے پر سرکاری کارروائی نمٹائی نہیں جاسکی اور اسمبلی کااجلاس جمعہ کو سہ پہر تین بجے تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔