وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران معاشی اعشاریوں میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی اور مالیاتی خسارہ بڑھ گیا۔وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت بیرونی سرمایہ کاری میں 29.8 فیصد کمی آئی۔رپورٹ کے مطابق بیرونی سرمایہ کاری کا حجم ایک ارب 35 کروڑ ڈالر سے کم ہو کر 95 کروڑ ڈالر رہ گیا، مالیاتی خسارہ 21 فیصد اضافہ کے ساتھ 822 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
دستاویزات کے مطابق گزشتہ مالی سال اسی عرصہ کے دوران 676 ارب روپے کا مالیاتی خسارہ ریکارڈ ہوا تھا۔ زرعی قرضہ جات میں بھی رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران 2.4 کمی ریکارڈ کی گئی۔وزارت خزانہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت رواں مالی سال جولائی سے دسمبر برآمدات میں 4.8 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی۔ گزشتہ سال کی نسبت جولائی سے دسمبر درآمدات 22 ارب ڈالر سے 23 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔دوسری جانب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ حکومت سنبھالی تو تجارتی خسارہ بہت زیادہ تھا۔
معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے مشکل فیصلے کرنا پڑے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کی قدر کم کر رکھی تھی، اپوزیشن قرضوں کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کرتی ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، ڈالرکی قیمت کم ہونے سے 3 کھرب کے قرض کا اضافہ ہوا۔وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ معیشت کی بہتری کے مثبت اثرات عوام تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں، گزشتہ حکومت نے مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت کم رکھی ہوئی تھی۔قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اس وقت ملک کے تمام معاشی اعشاریے مثبت سمت کی طرف گامزن ہیں۔
اشیائے ضروریہ کی دستیابی اور قیمتوں پر کنٹرول سے متعلق اقدامات کے جائزہ کی صدرات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔عمران خان نے کہا کہ آٹے اور چینی کی صورتحال پر مسلسل نظر رکھی جائے۔ مستقبل کی ضروریات کے پیشگی انتظامات کویقینی بنایا جائے۔ اشیائے ضروریہ کی دستیابی اور قیمتوں کا تعین صوبائی اختیارہے۔ بہرحال موجودہ معاشی اعشاریوں سے یہ اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ ابھی تک ملک میں معاشی صورتحال بہتر نہیں ہے لہذا اس تمام صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کو ہی اقدامات اٹھانے ہونگے ۔
معاشی ابتری کا بوجھ باربار ماضی کی حکومتوں پر ڈالنے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی کیونکہ مسلسل یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اشیائے خوردونوش سمیت دیگر چیزیں مہنگی ہوتی جارہی ہیں جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر بھی کوئی کنٹرول نہیں کیاجارہا باوجود اس کے کہ عالمی مارکیٹ میںجب تیل کی قیمتیں گرچکی تھیں تب بھی ہمارے یہاں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اس قدر کمی نہیں کی گئی جو کہ ہونی چاہئے تھی ۔ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کیلئے خاص پیشرفت نہیں ہورہی حالانکہ ہمارے ہاں بیشتر اشیاء کی پیداوار بہت زیادہ ہے اور جس کی مانگ دنیا کے بیشتر ممالک میں ہے۔
مگر بدقسمتی سے آج تک وہ اہداف حاصل نہیں کئے جاسکے جس کے دعوے ہر وقت حکومتیں کرتی آئی ہیں۔ سب سے بڑی معاشی تبدیلی اس وقت آئے گی جب ہماری مصنوعات کو عالمی منڈی تک رسائی ملے گی اور دیگر ممالک کو برآمدات میںاضافہ ہوگا کیونکہ ڈالر کی آمد سے روپے کی قدر مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی بحران پر بھی قابو پایاجاسکتا ہے۔ اب یہ حکومتی معاشی پالیسی پر منحصر ہے کہ معاشی سمت کے حوالے سے کس طرح کے اقدامات اٹھائے گی۔