کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین نے کہا کہ کیسکو نے بلوچستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 18 گھنٹے تک بڑھا دیا، بجلی سے تجارت، صنعت، تعلیم سمیت تمام شعبے براہ راست منسلک ہیں ریکوری اور لائن لاسز کا بہانہ بناکر غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، ریکوری کرنا اور بجلی کی چوری روکنا کیسکو کی ذمہ داری ہے۔
کیسکو کو بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے،بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ سے متعلق اسلام آباد جاکر اعلیٰ حکام سے ملاقات کرکے معاملات طے کیے جائیں جبکہ حکومتی رکن نے کہا کہ جلد بلوچستان حکومت کیسکو کو 6 ارب روپے کی خطیر رقم ادا کریگی جس سے لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں کمی آئیگی۔بلوچستان اسمبلی کااجلاس جمعہ کو مقررہ وقت سے ڈیڑھ گھٹنے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سرداربابر موسیٰ خیل کی صدارت میں شروع ہوا۔
اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن اصغر علی ترین نے توجہ دلاو نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر برائے محکمہ توانائی سے استفسار کیا کہ حکومت بلوچستان ایگریکلچر سبسڈی کی مد میں 26 ارب 17 کروڑ روپے اور مختلف محکموں کی مد میں 24 ارب 2 کروڑ روپے جبکہ کل ملاکر 50 ارب 19 کروڑ روپے کیسکو بلوچستان کی مقروض ہے جس کی بابت کیسکو بلوچستان نے مختلف اضلاع کے مختلف فیڈرز کی بجلی بند کردی ہے۔
اور کچھ اضلاع میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 18 گھنٹے تک بڑھا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، صوبائی حکومت کیسکو کی مذکورہ رقم کی ادائیگی نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں تفصیل فراہم کی جائے۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے اقلیتی امور دنیش کمار نے بتایا کہ اس سلسلے میں متعلقہ ڈیپارٹمنٹ نے سمری وزیراعلیٰ بلوچستان کو ارسال کردی ہے جلد بلوچستان حکومت کیسکو کو 6 ارب روپے کی خطیر رقم ادا کریگی۔
جس سے لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں کمی آئیگی۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان حکومت نے مسلے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ 5 ارب روپے کی رقم بجٹ میں رکھی گئی ہے اس سمیت مزید ایک ارب روپے سبسڈی کی مد میں کیسکو کو ادا کی جائیگی، انہوں نے کہاکہ 8 سو 23 ملین روپے اوور بلنگ کی مد میں کیسکو سے معاف کرالئے گئے ہیں۔بی این پی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد حکومت کو چاہیے تھا کہ بجلی کے انفراسٹرکچر کیلئے اقدامات اٹھاتی تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔
بجلی سے تجارت، صنعت، تعلیم سمیت تمام شعبے براہ راست منسلک ہیں بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ہم نے مختلف قردادیں منظور کرائیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوا انہوں نے کہا کہ ہمیں کیسکو چیف کی بجائے اسلام آباد جاکر متعلقہ حکام سے ملاقات کرکے معاملات طے کرنے چاہئیں۔انہوں انے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی جب وفاقی حکومت کی اتحادی تھی تو ہم نے انفراسٹرکچر کی مد میں وفاقی پی ایس ڈی پی میں فنڈز مختص کرائے تھے۔
ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ صوبائی بجٹ بناتے وقت صوبے کی تکالیف اور مشکلات کو مدنظر رکھ کر بجٹ بنایا جائے مگر ایسا نہیں ہوا اسپتالوں میں موبائل فون کی روشنی سے مریضوں کے آپریشن کئے جارہے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو اسلام آباد جاکر وفاق کے ساتھ مدلل انداز میں بات کرئے۔ بی این پی کے رکن اختر حسین لانگو نے کہا کہ ریکوری اور لائن لاسز کا بہانہ بناکر غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔
ریکوری کرنا اور بجلی کی چوری روکنا کیسکو کی ذمہ داری ہے جس سے کسی نے نہیں روکا نہ ہی اس ایوان میں موجود کسی معزز رکن نے کسی بجلی چور کی سرپرستی کی ہے کیسکو کو بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ لیکن یہ درست نہیں کہ چوری کوئی کرے اور سزا کوئی اور بھگتے کوئٹہ شہر میں 11 گھنٹوں تک کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، غیر قانونی ٹیوب ویلز سے کیسکو اہلکار پیسے وصول کرتے ہیں۔
ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے کہا کہ بجلی کا مسئلہ اپوزیشن یا حکومت کا نہیں بلکہ پورئے بلوچستان کا ہے، حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کو مورود الزام ٹہرانے کی بجائے مسلے کے حل پر بات کرنی چاہیے۔دریں اثناء بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے محکمہ تعمیرات ومواصلات سے 361ملازمین کو نکالنے کے معاملے پرچیف سیکرٹری اور سیکرٹری مواصلات کو طلب کرلیا۔
اجلاس میں قائمہ کمیٹی برائے محکمہ آبپاشی،توانائی،ماحولیات،جنگلات و جنگلی وحیات،قائمہ کمیٹی برائے محکمہ اطلاعات،کھیل وثقافت،سیاحت،آثار قدیمہ،میوزیم ولائبریریز،مجلس قائمہ برائے محکمہ بلدیات کی رپورٹیں پیش کی گئیں جنہیں ایوان نے منظور کرلیا،اجلا س میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کورم کی نشاندہی کا مسئلہ برقراررہا، حکومتی رکن کی نشاندہی پراسمبلی کا اجلاس ایک بار پھر کورم کی نشاندہی پر کاروائی مکمل کئے بغیر ملتوی کردیا گیا۔
بلوچستان اسمبلی کااجلاس جمعہ کو مقررہ وقت سے ڈیڑھ گھٹنے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سرداربابر موسیٰ خیل کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثناء بلوچ نے توجہ دلاو نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر برائے محکمہ تعمیرات ومواصلات سے استفسار کیا کہ سی اینڈ ڈبلیو کے 361 ملازمین 10 سال سے محکمہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ان کی برطرفی سے صوبے بھر کے ملازمین میں تشویش پائی جارہی ہے، مذکورہ ملازمین کو نکالنے کی وجوہات اور ان کی بحالی سے متعلق جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات میر محمد عارف محمد حسنی نے کہا کہ ہماری ہمدردیاں ملازمین کے ساتھ ہیں، اگر قانونی طور پر کوئی گنجائش نکلتی ہے تو انہیں بحال کیا جائے گا ان ملازمین کی تعیناتی کے آرڈر جاری کرنے پر تین آفیسران ضمانت پر ہیں۔
ملازمین بلوچستان ہائی کورٹ میں اپیل کرسکتے ہیں بی این پی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ دسمبر 2018ء میں بھی ہم نے معاملہ اسمبلی میں اٹھایا تھا جس پر ایوان میں کمیٹی بنائی گئی تھی، میری استدعا ہے کہ اسمبلی کی کمیٹی کی رپورٹ آنے تک مذکورہ ملازمین کو ان کے عہدوں پر بحال کیا جائے۔ بی این پی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ یہ ملازمین سروس ٹریبونل سے کیس جیت کرآئے ہیں۔
اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے 361 گھروں کے چولہے بجھ گئے ہیں انہوں نے مسلے پر مزید غور کے لئے چیف سیکرٹری بلوچستان، سیکرٹری تعمیرات و مواصلات اور کمیٹی ممبران کا اجلاس پیر کو طلب کرتے ہوئے رولنگ دی کہ اجلاس میں ڈاکومنٹس کا جائزہ بھی لیا اور رپورٹ اسمبلی میں پیش کی جائیگی۔ اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی اور بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیراحمد شاہوانی کی عدم موجودگی پر ان کی توجہ دلاؤ نوٹسز آئندہ اجلاس کیلئے موخر کردیئے گئے۔اجلاس میں محرکین کی عدم موجودگی پر وقفہ سوالات بھی موخر کردیا گیا۔
اجلاس میں چیئرپرسن قائمہ کمیٹی برائے محکمہ آبپاشی،توانائی،ماحولیات،جنگلات و جنگلی وحیات زینت شاہوانی،چیئرپرسن قائمہ کمیٹی برائے محکمہ اطلاعات،کھیل وثقافت،سیاحت،آثار قدیمہ،میوزیم ولائبریریز،مجلس قائمہ فریدہ رند اورچیئرمین برائے محکمہ بلدیات، بی ڈی ائے، گی ی ائے، بی سی ڈی ائیاور شہری منصوبہ بندی و ترقیات قادر علی نائل نے اپنی اپنی کمیٹیوں کی رپورٹیں پیش کیں جنہیں۔
ایوان نے کمیٹیوں کی سفارشات کے بموجب منظور کرلیا۔اجلاس میں بی این پی کے رکن ثناء بلوچ نے اپنی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی نے متفقہ طور پر گزشتہ دو سالوں کے دوران درجنوں اہم عوامی و صوبائی معاملات سے متعلق قراردادیں منظور کیں لیکن صوبائی حکومت نے بجٹ و پالیسی تشکیل دینے کے عمل میں ان قراردادوں کو یکسر نظر انداز کیا۔
جو اس ایوان کے تمام ممبران کے استحقاق مجروح کرنے و ایوان کے ضابطہ کار کی بھی خلاف ورزی ہے، لہٰذا یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ 15 یوم میں گزشتہ دو سال کے دوران تمام منظور شدہ قراردادوں کی بابت جو بھی پیشرفت ہوئی ہے اس کی مکمل تفصیلات ایوان میں پیش کی جائے اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والے اداروں کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائیں۔
قرارداد کی موذونیت پر بات کرتے ہوئے ثناء بلوچ نے کہاکہ بلوچستان اسمبلی کے قواعد کے مطابق ایوان سے منظور ہونے والی کسی بھی قرارداد پر 60یوم کے اندر ایوان کو اس کے متعلق رپورٹ پیش کی جاتی ہے جمہوریت ایک نظام ہے جو جمہوری رویوں کے بغیر پنپ نہیں سکتا صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے والی کوئی بھی قرارداد ایسی نہیں جو آئین،قانون اور صوبے کے حقوق سے متصادم ہو لیکن2سال میں کسی قرارداد پر پیشرفت نہیں ہوئی۔
ہم نے بلوچستان اسمبلی کو ڈیجیٹل بنانے کیلئے قراردادمنظور کی اس پر کام شروع ہوا لیکن وہ بھی رک گیا،11فروری 2019ء کو اسمبلی سے اسکولوں کی لائبریریوں کو ڈیجٹیلائز کرنے کی قرارداد بھی منظور ہوئی لیکن آج تک اس پر بھی عمل نہیں ہوابھی ثناء بلوچ اظہار خیال کررہے تھے کہ رکن صوبائی اسمبلی مبین خلجی نے کورم کی نشاندہی کردی جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کورم کی گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کی تاہم کورم پورا نہ ہونے اجلاس پیر سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔