بلوچستان کے ساتھ زیادتیوں اورمحرومیوں کی طویل فہرست ہے اس کی ذمہ داری ہمیشہ وفاقی حکومتوں پر ڈالی گئی ہے گوکہ وفاق کا رویہ بلوچستان کے ساتھ کبھی بھی اچھا نہیں رہا جو بلوچستان کا جائز حق ہے اسے بھی نہیں دیاگیا جس طرح دیگر صوبوں میں ترقی وانفراسٹرکچر واضح طور پر دکھائی دیتا ہے ، وہاں کی عوام کی زندگی بلوچستان کے لوگوں سے بہت بہتراور پر آسائش ہے کم ازکم انہیں بنیادی سہولیات بعض حد تک میسر ہیں مگر ہمارے ہاں تو ترقی کے حوالے سے سوچنا تو اپنی جگہ ،بنیادی سہولیات تک آج تک عوام کو نہیں ملے۔ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔
سابقہ صوبائی حکومتوں نے جو دعوے کئے ان پر تنقید ہمیشہ کی جاتی رہی ہے مگر موجودہ صوبائی حکومت نے ڈیمز سے متعلق کون سے بڑے اقدامات اٹھائے ہیں جو دو سالوں میں زمین پر نظرآتے دکھائی دیں۔ حالانکہ یہ سب کے علم میں ہے کہ بلوچستان ایک زرعی صوبہ ہے اور یہاں کے بیشتر لوگوں کا دارومدار زمینداری سے وابستہ ہے ۔بدقسمتی سے پانی نہ ہونے کی وجہ سے زرعی شعبہ مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے خشک سالی کے باعث بعض اضلاع کے لوگ ہر وقت نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں ان کے مال مویشی مر جاتے ہیں تو اس کا براہ راست اثر انسانی زندگیوںپر بھی پڑتا ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ غذائیت کی کمی کے باعث خواتین کی بڑی تعداد موت کا شکار ہوجاتی ہے جبکہ بچے انتہائی لاغر اورکمزور ہوجاتے ہیں ۔کیا اس حوالے سے موجودہ حکومت نے مستقبل کے چیلنجز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائے ہیں ،جواب بالکل نفی میں ہوگا کیونکہ اب تک بیشتر اضلاع میں یہ صورتحال اسی طرح برقرار ہے خدانخواستہ اگر قحط پڑجائے تو پھر سے بڑا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے مگر ہمارے صوبائی حکمران بیانات کے ذریعے آج بھی دودھ اور شہد کی نہریں بہارہے ہیں ۔ تعلیم اور صحت کا تو یہ حال ہے کہ ہمارے غریب عوام دیگر صوبوں میں اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کیلئے بھیجتے ہیں۔
کیونکہ یہاں تعلیمی نظام انتہائی زبوں حالی کا شکارہے، آج بھی لاکھوں کی تعداد میں بچے اسکولوں سے باہر ہیں اسکولوں کی تعمیر ومرمت سمیت اساتذہ کے مسائل حل نہیں کئے جاتے، اس کی ذمہ داری محض محکمہ تعلیم یا صوبائی وزیر تعلیم پر نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ حکومت کے تمام تر اقدامات اور فیصلوں کا براہ راست تعلق کابینہ سے ہوتا ہے اور انہی کی منظوری اور فیصلوں سے ہی تبدیلی آتی ہے جسے لیڈبراہ راست خود وزیراعلیٰ بلوچستان کرتے ہیں ۔کیا کبھی وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان صاحب نے تعلیم کے متعلق مکمل جامع رپورٹ طلب کرتے ہوئے صورتحال کا جائزہ لیاہے۔
کہ اب تک ہمارے ہاں مڈل اورہائی اسکولوں کی صورتحال کیا ہے؟ بچوں کی کتنی تعداد آج بھی اسکولوں سے باہر ہے؟ کالجز اوریونیورسٹیز کو کیا سہولیات فراہم کی گئی ہیں؟ طلباء ،طالبات اور اساتذہ کو کیا مسائل درپیش ہیںجنہیں ہنگامی بنیادوں پر حل کیاجائے۔ افسوس کہ صرف دعوؤں تک ہی اقدامات اور نوٹسز دکھائی دیتے ہیں ۔اسی طرح صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہے المیہ تو یہ ہے کہ کوئٹہ جو صوبائی دارالحکومت ہے یہاں پر سول اسپتال میں عوام کو ٹیسٹ، ایکسرے سمیت ادویات کی سہولیات تک میسر نہیں بہ مجبوری انہیں پرائیویٹ اسپتالوں میںجاکر علاج کرانا پڑتا ہے ۔
جس کے عوض انہیں بھاری فیس اداکرنے کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کیلئے بھی ایک خطیر رقم دینا پڑتی ہے بعض افراد تو کراچی میں علاج کیلئے جاتے ہیں اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ انہیں کس اذیت سے دوچار ہوناپڑتا ہے کہ انہیں اپنے ہی صوبے میں صحت جیسی بنیادی سہولت تک دستیاب نہیں۔بہرحال یہ تو صرف چیدہ چیدہ مسائل ہیں جن کا سامنا عوام کو ہے مگر آج بھی صوبائی وزراء کے بیانات بلوچستان کو آسمان کی بلندیوں پر لے جارہے ہیں جبکہ عوام زمین کے اندر دھنستی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ خدارا بلوچستان کو صرف بنیادی سہولیات ہی فراہم کرنے کیلئے کچھ اقدامات اٹھائے جائیں ناکہ سابقہ حکومتوں کو دوش دیتے ہوئے جان چھڑائی جائے جو کہ ہمارے طرز حکمرانی کا پرانا وطیرہ ہے ۔لہذا صوبائی حکومت ترقی کے تشہیر کی بجائے حقیقی معنوںمیں بلوچستان کے مسائل پر توجہ دے تاکہ غریب عوام کا کچھ تو بھلا ہوسکے۔