الیکشن کمیشن نے پنجاب، خیبر پختونخوا اور کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کی تاریخ دے دی۔ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا۔
میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔الیکشن کمیشن کے مطابق خیبر پختونخوا کے پہلے مرحلے میں 8 اپریل کو بلدیاتی انتخابات ہوں گے اور دوسرے مرحلے میں 29 مئی کو انتخابات ہوں گے۔ پہلے مرحلے کا اعلان 12 فروری اور دوسرے کا اعلان 25 مارچ کو کیا جائے گا۔الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 3 مراحل میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب کا پہلا مرحلہ 20 جون، دوسرا مرحلہ 16 جولائی اور تیسرے مرحلے میں 8 اگست کو انتخابات ہوں گے۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان بھی مرحلہ وار کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے کا اعلان 12 اپریل، دوسرے کا 18 مئی اور تیسرے مرحلے کا اعلان 2 جون کو کیا جائے گا۔کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات 8 اپریل اور 29 مئی کو ہوں گے جبکہ پہلے مرحلے کا اعلان 12 فروری اور دوسرے مرحلے کا اعلان 25 مارچ کو ہو گا۔سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں الیکشن کمیشن کے دو اجلاس ہوئے جس میں چاروں صوبوں، اسلام آباد اور کنٹونمنٹ میں بلدیاتی انتخابات زیر غور آئے۔ دونوں اجلاسوں کے منٹس بھی عدالت میں جمع کروا دیے گئے ہیں۔سندھ اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ 11 فروری تک ملتوی کیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ بارہا کیا گیا ہے کہ ایک ایسابلدیاتی نظام لائینگے جس سے براہ راست نچلی سطح پر عوام کو فائدہ پہنچے گا امید یہی ہے کہ بلدیاتی نظام میںمقامی حکومتوں کو مکمل اختیار ات حاصل ہونگے کیونکہ ماضی میں یہ دیکھنے کوملا ہے کہ بلدیاتی نظام پر ایم پی ایز کا اثر ونفوذ رہا ہے یہاں تک کہ لوکل نمائندگان کو فنڈزکے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑتاتھا کہ وہ اپنے علاقوں میں کسی حد تک عوام کے تھوڑے بہت مسائل حل کرسکیں ۔ بلوچستان واحد صوبہ ہے جو رقبہ کے لحاظ سے ملک کا نصف حصہ پر مشتمل ہے جہاں پر ترقی کی رفتار سب سے سست اور بنیادی سہولیات نہ ہونے کے اسباب مقامی حکومتوں کے پاس اختیارات کا نہ ہونا ہے۔ پچھلے ادوار میں سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات بلوچستان میں ہوئے اور یہ کریڈیٹ حکومت لیتی رہی مگر مقامی نمائندگان اس کا رونا چار سال سے زائد عرصہ تک روتے رہے کہ ان کے اختیارات میں مقامی ایم پی ایز کس حد تک مداخلت کرتے ہیں۔ان کے فنڈز تک انہیں نہیں دیئے گئے جو بھی فیصلے لوکل نمائندگان کرتے ان پر عملدرآمد نہیں کیاجاتا بلکہ براہ راست صوبائی حکومت اسے کنٹرول کرتی رہی۔ کوئٹہ جو بلوچستان کا دارالخلافہ ہے یہاں پر بھی میئر اور ڈپٹی میئر بے اختیار دکھائی دیئے ،جب انہوں نے یہاں پر بلڈنگ کوڈ، پارکنگ پلازہ سمیت دیگر اہم مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی تو انہیں کام کرنے نہیں دیا گیا جس کا اعتراف خود سابق میئر ڈاکٹرکلیم اللہ نے میڈیا کے سامنے کیا ۔اگر بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہونے کے بعد بھی نچلی سطح تک اختیارات نہیں منتقل نہیں کیے گئے تو یہ بے سو د ثابت ہوگا۔ بلوچستان کے بنیادی مسائل اپنی جگہ ویسے ہی برقرار رہینگے آج بھی بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں صحت اور تعلیم جیسے بنیادی مسائل عوام کیلئے عذاب بن چکے ہیں ایم پی ایز کے پاس اتنا وسیع حلقہ ہوتا ہے کہ ان کی نظریںاپنے حلقے کے ان دور دراز علاقوں تک پہنچ ہی نہیں پاتیں مگر پھر بھی وہ اپنے حلقے میں دیئے جانے والے فنڈز میں رکاوٹ کھڑی کرنے کے ساتھ ساتھ مداخلت کرتے ہیں تاکہ فنڈز انہیں ملے جوکہ مقامی نمائندگان کے ساتھ زیادتی ہے۔ بہرحال اس اہم مسئلہ پر وفاقی وصوبائی حکومت دونوںکو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے کہ بلوچستان میں مقامی حکومت کو کس طرح مضبوط بنایا جائے تاکہ بلوچستان کے مسائل کسی حد تک حل ہوسکیں۔