|

وقتِ اشاعت :   February 8 – 2021

کوئٹہ: ماہرین امراض نیورولوجی نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سو میں سے ایک شخص مرگی کے مرض میں مبتلا ہیںبلوچستان میں اس کی شرح تین فیصد ہے جبکہ بچوں میں اس بیماری کی شرح دو گنا زیادہ ہے۔

آگاہی کے فقدان کی وجہ سے لوگ اس کا بروقت علاج نہیں کرتے بلکہ بیماری کو چھپاتے ہیں جس سے اموات ہوتی ہیں۔ یہ بات بولان میڈیکل یونیورسٹی شعبہ نیورولوجی کے سربراہ ڈاکٹر سلیم بڑیچ ، ڈاکٹر وزیر اکبر خان ، ڈاکٹر انجم فاروق ، ڈاکٹر احمد ولی نے مرگی کے عالمی دن کے موقع پر پیر کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر ڈاکٹر سلیم بڑیچ نے کہا کہ مرگی سے متعلق آگاہی کے فقدان کے باعث ہر سال 8 فروری کو پوری دنیا میں مرگی کا عالمی دن منایا جاتا ہے ، مرگی ایک دماغی بیماری ہے مگر ہمارے معاشرے میں اس مرض کو آسیب یا بھوت پریت کے طور پر جانا جاتا ہے حالانکہ یہ ایک سنگین نوعیت کی بیماری ہے ، سائنسی تحقیق کے مطابق ہر شخص کو ایک فیصد مرگی کی بیماری کا خدشہ ہمیشہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مرگی کا علاج اور ادویات صرف تیس فیصد افراد لیتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں علاج کا تناسب صرف دو فیصد ہے انہی عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے صحت کے شعبے میں پالیسی بنائی جائے۔انہوں نے کہا کہ مرگی کے عام طور پر دو اقسام ہیں ، پہلی قسم میں مکمل بے ہوشی طاری ہوتی ہے مریض گرکر زخمی ہوسکتا ہے اس کی زبان کٹ سکتی ہے۔

اور پیشاب وغیرہ بے اختیار ہوجاتا ہے جبکہ دوسری قسم چھوٹی مرگی کہلاتی ہے جس میں بے ہوشی نہیں ہوتی بلکہ جسم کا ایک حصہ جھٹکے کھاتا ہے اور مریض گم صم ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مختلف اقسام کی مرگی کا علاج ہوسکتا ہے بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مرگی کے بارے میں منفی رجحانات زیادہ ہیں ماہر امراض دماغ یا نیورولوجسٹ سے معائنہ کرانا ضروری ہے۔

بروقت اور درست علاج کرانے سے یہ مرض ستر فیصد سے زیادہ کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ مرگی کا مریض نہ صرف کامیاب زندگی گزارسکتا ہے بلکہ نمایاں کام بھی انجام دے سکتا ہے۔ نوے فیصد مرگی کے مریض مکمل صحت یاب ہوجاتے ہیں۔

اسی طرح بچے بھی صحیح علاج کے بعد صحت یاب ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مرگی کا علاج سستا میسر آسکتا ہے بشرطیکہ صحت کے پالیسی ساز غریب کی غربت کو مدنظر رکھ کر پالیسی بنائیں۔انہوں نے کہا کہ مرگی کا علاج آگاہی کے ذریعے ہی ممکن اور سہل بنایا جاسکتا ہے مرگی کے متعلق توہمات کو ختم کرنا ضروری ہے ، ان توہمات کی وجہ سے مریض اور اس کا خاندان ہمیشہ خوف کے سایے میں جیتے ہیں۔