|

وقتِ اشاعت :   February 10 – 2021

وفاقی حکومت نے اسلام آباد کی پرائس کمیٹیوں کو ختم کردیا ہے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں مہنگائی کے مسئلے پر بھی بات چیت ہوئی۔ نرخوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ذمہ داری ہم نے انتظامیہ کو منتقل کردی ہے۔شبلی فراز نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ پورے شہر میں ایک ہی نرخ پر اشیاء خوردونوش کی قیمت نافذ کرے گی۔ متعلقہ ضلعی انتظامیہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی ذمہ دار ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پیٹرول کی اسمگلنگ روکنے کیلئے موثراقدامات کیے ہیں۔ ریوینیو لیکیج کو روکنے کیلئے سخت اقدامات اٹھانے جا رہے ہیں۔

ایف بی آر میں اصلاحات سے محصولات میں 368 ارب روپے اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم نے محصولات کے متبادل ذرائع پر زور دیا ہے۔شبلی فراز نے کہا کہ سندھ حکومت نے بروقت گندم کی سپلائی نہ دے کر کراچی میں آٹا مہنگا کیا۔ ایک صوبے کی 6 سال کی ذخیرہ اندوزی سے ہمیں باہر سے آٹا درآمد کرنا پڑا۔حقیقت تو یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میںپہلی مرتبہ نہ تو مہنگائی کے متعلق بات ہورہی ہے اور نہ ہی پہلے کمیٹیوں کی ذمہ داریاںکسی اور کوسونپی گئی ہیں ۔واضح رہے کہ ٹائیگرفورس کو مہنگائی پر کنٹرول کرنے کاٹاسک دیا گیا تھا ۔

مگر ملک کے کسی حصہ کی مارکیٹ میں ٹائیگر فورس دکھائی نہیں دی تھی کیا اس اقدام اور فیصلے کے بعد مہنگائی پر قابوپانے میں حکومت کامیاب ہوگی، جواب نفی میں ہوگا کیونکہ مہنگائی کا ایک تو براہ راست تعلق پیٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ہوتا ہے جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافہ کیاجاتا ہے تو تمام چیزیں خود بہ خود مہنگی ہوجاتی ہیں ،مارکیٹوں میں اشیاء خوردونوش لانے والی گاڑیاں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت کے عوض کرایہ وصول کرتے ہیں اور اس طرح سے بیوپاری کرایہ کا پیسہ اشیاء کی قیمتوںمیں اضافہ کے ساتھ پورا کرتے ہیں۔

یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے جس کو حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ ہر پندرہ دن بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد کس طرح سے مہنگائی کو قابو کیاجاسکتا ہے لہٰذا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرکے ہی کسی حد تک مہنگائی میںکمی کی جاسکتی ہے مگراس پر مکمل قابو پانا مشکل ہے ۔جہاں تک پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی بات ہے تو یہ اول روز سے ہی غیر فعال ہیں کبھی کسی جگہ کمیٹی نے کارروائی نہیں کی یہ محض سرکاری خزانہ پر بوجھ ہیں اور ہمارے یہاں سرکاری محکموں کی صورتحال بھی یہی ہے کہ کام کم ہیراپھیری زیادہ کی جاتی ہے۔

اور ڈیوٹی تو جیسے ان کی ذمہ داریوں میں آتی ہی نہیں ۔ اب بات کی جائے ضلعی انتظامیہ کی تومہنگائی کے حوالے سے ضلعی آفیسران کی کارکردگی بھی ایسی نہیں کہ جس کی مثال دی جاسکے کیونکہ پہلے بھی ضلعی انتظامیہ کو پابند کیاگیا تھا کہ مارکیٹوںمیں روزانہ کی بنیاد پر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو چیک کرنے کیلئے دورہ کریں مگر ضلعی انتظامیہ اس حوالے سے مکمل غیر فعال رہی۔ سال میںایک دوبار مارکیٹوںکا دورہ کرکے فوٹو سیشن کرکے پبلسٹی کی جاتی ہے جبکہ مہنگائی کو قابو کرنے کی اصل ذمہ داری سے غافل ہی رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے صوبائی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی اس حوالے سے پابند کیا تھا مگر نتیجہ سامنے ہے کہ اب تک ملک میںمہنگائی کو کنٹرول کرنے میں حکومت بری طرح سے ناکام ہے ،عوام کیلئے دو وقت کی روٹی کاحصول مشکل ہوکر رہ گیا ہے۔ عام آدمی تو سبزی بھی افورڈ نہیں کرسکتا گوشت تو ان کے تصور سے ہی باہر ہے ۔دیگر مصالحہ جات کی قیمتیں سن کر غریب کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔

اس لئے ضروری ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے معاشی پالیسی پر غور کیاجائے اور خاص کر آئے روز پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو بڑھانے سے گریز کیاجائے تب جاکر کسی حد تک مہنگائی پر کنٹرول کرنا آسان ہوگا وگرنہ محض کمیٹیاںبنانے اور ذمہ داریاں ایک دوسرے پر ڈالنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔