گزشتہ روز سے ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے مبینہ ویڈیو میں حکومتی حلقوں کی جانب سے بھاری رقم لیتے ہوئے دکھایا جارہا ہے جس کے بعد ایک ہنگامہ برپاہوگیا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے ہارس ٹریڈنگ ہورہی ہے۔ بہرحال ویڈیو کے مصدقہ ہونے کی بات الگ ہے مگر ملک میں سینیٹ کی نشست کیلئے بولی لگانے کا سلسلہ طویل عرصہ سے چلتا آرہا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت ایسی پارسا نہیں کہ اس نے ہارس ٹریڈنگ نہ کی ہو جو ہمارے یہاں کے کرپٹ نظام کی واضح مثال ہے۔ جب سیاست کے ایوانوں میں نمائندگان لانے کیلئے رقم کا استعمال ہو تو کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ملک میں معاشی خوشحالی اور عوامی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
بلکہ اس سے کرپشن کی جڑیں مضبوط تر ہوجائینگی اور یہی وجہ ہے کہ آج ہماری معیشت انتہائی لاغر ہوکر رہ گئی ہے کیونکہ جب سیاست کاروبار کا روپ دھارجائے تو پھر کیسے وہ نمائندگان جورقم خرچ کرکے ایوانوں تک پہنچتے ہیں ، کس طرح عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدگی لینگے ۔بہرحال یہ ہمارے سیاسی نظام پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور اس بات سے کوئی سیاسی رہنماء انکار نہیں کرسکتا کہ خاص کرجب سینیٹ کے انتخابات ہوتے ہیں تو باقاعدہ بولی لگتی ہے اور رقم مقرر کی جاتی ہے جس کا اعتراف خودسیاسی رہنماء کرتے آئے ہیں۔
گزشتہ روز کلرسیداں میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ یاد رکھیں اگر سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ نہ ہوئی تو اپوزیشن والے روئیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سینیٹ کے ایک ووٹ کی قیمت 50 سے 70کروڑ لگ رہی ہے، آج نہیں کئی دفعہ پہلے بھی مجھے پیسوں کے عوض سینٹ کی سیٹ بیچنے کی آفر ہوئی، سینیٹ کی سیٹ بیچنے کے لیے براہ راست اور بالواسطہ رابطے کیے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی چارٹر آف ڈیموکریسی میں اوپن بیلٹ کا معاہدہ کر چکی ہیں۔
میں مسلم لیگ ن کے اوپن بیلٹ کے مطالبے کی تائید کر چکا ہوں۔انہوں نے کہا کہ اصل ایشو یہ ہے کہ کیا اس موجودہ سسٹم کے تحت الیکشن ہونا چاہیے یا نہیں، ووٹوں کی خرید و فروخت میں سب سے زیادہ مال مولانا فضل الرحمن نے بنایا۔وزیراعظم کا کہنا تھا یاد رکھیں اگر سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ نہ ہوئی تو اپوزیشن والے روئیں گے، سیکرٹ ووٹنگ کے تحت حکومت کو اپوزیشن سے زیادہ سیٹیں مل سکتی ہیں۔سینیٹ انتخابات میں ووٹ بیچنے کی ویڈیو کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میرے پاس ویڈیو ہوتی تو بہت پہلے انہیں عدالت لے جا چکا ہوتا۔
اب معاملہ 40کروڑ سے نکل کر 80کروڑ کی آفر تک پہنچ چکاہے۔ وزیراعظم عمران خان خود اس بات کو تسلیم کررہے ہیںکہ سینیٹ نشست کی قیمت کہاںتک پہنچ چکی ہے اور بلوچستان کا باقاعدہ اس میں ذکر کیاہے ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بلوچستان ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے زیادہ بدنام ہے کہ یہاں پر سینیٹ نشست کی قیمت زیادہ لگائی جاتی ہے مگر اس کے ساتھ دیگر صوبوںمیں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے مگر اس شرمناک عمل کو روکنے کیلئے اقدامات کس طرح اٹھائے جاسکتے ہیں اور سیاسی جماعتیںبجائے ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگانے کے، ایک شفاف نظام کی طرف ملک کو کس طرح لے جاسکتے ہیں۔
کیونکہ عوام انہی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دے کر اس امید کے ساتھ ایوان میں بھیجتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرینگے مگر افسوس کہ جس طرح سے کرپشن کے متعلق سیاسی جماعتوں کی جانب سے باتیں کی جارہی ہیں عوامی اعتبار سیاستدانوں سے اٹھتا جارہا ہے اور عوامی امیدیں اورتوقعات بھی ختم ہورہی ہیںکہ سیاستدان ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے سیاست کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کیلئے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں ،یہ سوالیہ نشان ہمارے سیاسی نظام پر ہے جس کی ذمہ دارسیاسی جماعتیں ہیں۔
جنہوں نے سیاست کو تجارت میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے جبکہ عوام کو بحرانات کی طرف دھکیل دیا ہے ۔لہٰذا سیاسی جماعتیں کرپشن کے خاتمے کیلئے اپنی صفوںسے کرپٹ عناصر کو نکال کر عوام کے اعتماد کو بحال کریں وگرنہ ملک مزید بحرانات سے دوچار ہوگا جس کے ذمہ دار سیاست دان ہی ہونگے جنہوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کا بیڑا اٹھارکھا ہے۔