|

وقتِ اشاعت :   February 17 – 2021

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ مریم نواز لندن جانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے بیک ڈور رابطے کیے گئے ہیں۔وفاقی وزیر فواد چودھری نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اس ضمن میں ملنے والی درخواست کو مکمل طور پر رد کردیا ہے۔وفاقی وزیر فواد چودھری نے نام لیے بغیر کہا کہ آپ تحریک کا شوق پورا کرلیں لیکن اس کے لیے آپ کو پاکستان میں رہنا ہو گا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ مریم نواز ہمیشہ سے ضدی ہیں۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی صاحبزادی کی سپریم کورٹ کو دھمکیوں کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھلے زبردستی میڈیکل کالج میں داخلہ ہو یا چچا کو ہٹا کر پارٹی پر قبضہ ہو۔ڈاکٹر شہبازگل نے کہا کہ والد نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا اور بیٹی بھی اسی راہ پر گامزن ہے لیکن یاد رہے کہ عمران خان نہ تو این آر او دے گا اور نہ ہی ای سی ایل میں تبدیلی ہو گی۔

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کاکہنا ہے کہ درخواست پر نواز شریف کو پاکستان آنے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جا سکتا ہے۔میڈیا سے گفتگو کے دوران شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کے پاسپورٹ کی مدت ابھی ختم ہوجائے گی، انہیں ملک واپس آنے سے نہیں روکا جارہا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ ہے نواز شریف پاکستان واپس آئیں، جس کا نام ای سی ایل میں ہو اسے پاسپورٹ جاری نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے نواز شریف کو جو اجازت دی۔

انہوں نے غلط استعمال کی۔ انہوں نے واپس نہیں آنا صرف باتیں ہی کرتے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ مریم نواز نے سرجری کی بات کی، اگر وہ درخواست نہیں کرنا چاہتی تو نہ کریں اچھی بات ہے۔ لوگ سیاست کیلئے ملک چھوڑ کرجاتے ہیں تو ووٹ کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔وفاقی وزراء کی جانب سے ایک بار پھر یہ دعوے کئے جارہے ہیں کہ بیک ڈور سے ن لیگ مذاکرات کررہی ہے اور اس حوالے سے مریم نواز کا نام لیاجارہا ہے چونکہ اس سے قبل شہباز شریف اور خواجہ آصف جیسے اہم رہنماؤں کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔

جس کی مسلم لیگ تردید کرتی رہی ہے۔ بہرحال وزراء اور ن لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے بیان بازی سے واضح ہوجاتا ہے کہ بیک ڈور مذاکرات فی الحال نہیں ہورہے مگر سیاست میں یقینا بات چیت ہی مسائل کا حل ہے البتہ اس میں نکات اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ ن لیگ کی قیادت پی ٹی آئی سے بات چیت کرنے کو بالکل تیار دکھائی نہیں دیتی جس کا برملا اظہار وہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کرتی آرہی ہے اور تمام ترمینڈیٹ اس وقت پی ڈی ایم کو دیا گیا ہے۔

اور اب تک پی ڈی ایم کی قیادت نے بھی بات چیت کے واضح اشارے نہیں دیئے ہیں۔ چند ماہ قبل مسلم لیگ فنکشنل کے رہنماء سے شہبازشریف اور مولانافضل الرحمان کی ملاقات ہوئی تھی اور یہ بات سامنے آئی تھی کہ حکومت کا پیغام لے کر ان کے پاس گئے تھے مگر حکومت نے اس کی تصدیق نہیں کی اور دوسری جانب اپوزیشن کے پیغام کی باتیں بازگشت کررہی تھیں۔ دونوں طرف سے ایک ہی مؤقف آیا کہ کسی نے کسی کوکو ئی پیغام نہیں دیا اور یوں معاملات آگے نہیں بڑھ سکے۔

البتہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتاجارہا ہے اور اب سینیٹ انتخابات میں ووٹنگ کا مسئلہ سب سے زیادہ زیر بحث ہے جس پر دونوں فریقین کی الگ الگ رائے ہے اور بات چیت کے عمل کا کوئی نام نشان نہیں جس سے کہاجائے کہ بیک ڈور کچھ چل رہا ہے۔