|

وقتِ اشاعت :   February 21 – 2021

کو ئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے بلوچستان میں مادری زبانوں کو زندہ رکھنے کیلئے جاری جدوجہد کو مزید وسعت دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ نوجوان مادری زبانوں پر توجہ دیتے ہوئے اپنا رشتہ علم سے جوڑ کر قومی امور کو آگے بڑھائیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کے روز مادری زبانوں کے عالمی دن کے حوالے سے سراوان ہائوس کوئٹہ میں صحافیوں کے ایک وفد سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی ،کارکن ،عالم اور ادیب اجتماعی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے مادری زبانوں کو زندہ رکھنے کیلئے جاری اپنی جدوجہد کو مزید وسعت دیں اور نوجوان مادری زبانوں پر توجہ دیتے ہوئے اپنا رشتہ کتاب سے جوڑ کر علم حاصل کرتے ہوئے قومی امور کو آگے بڑھائیں کیونکہ دنیا میں ڈگریاں حاصل کرنے والے نہیں باوقار اور علم حاصل کرنے والے لوگ ہی حکومت کرتے ہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر چہ ایک جانب ریاست نے زبانوں کی ترقی وترویج کیلئے اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں تو دوسری جانب ہمارے درمیان موجود نااتفاقی بھی اس کی ایک وجہ ہے سیاسی کارکن نے اپنے نظام اور اصول کے تعین کیلئے جمہوری انداز میں پارلیمنٹ میں ایسے نمائندے بھیجنے کیلئے کھبی سنجیدہ کوشش نہیں کی جو زبان اور کلچر کا دفاع کرکے اسے آگے لیکر جائیں ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جن قوموںنے اپنی زبانوں میں تحقیق کرکے سماج کی ترقی میں کردار ادا کیا وہ قومیں آج ہم سے بہت آگے نکل چکی ہیں کیونکہ اگر تحقیق اپنی زبان میں کی جائے تو فکر بھی اسی زبان میں پروان چڑھتی ہے جس سے بہت سے معاملات آسانی سے حل ہوتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ 1993ء میں شہید نواب میر غوث بخش رئیسانی نے براہوی ، بلوچی اور پشتومیں ٹی وی اور ریڈیو پر نشتریات کا آغازصوبے سے کرنے کیلئے جدوجہد کی اور ان کی اس جدوجہد اور کوششوں کے نتیجہ میں تینوں زبانوں میں نشتریات کا آغاز ہوا جس کے ذریعے ہم اپنی زبانوں میں باقی دنیا سے رابطہ کرتے رہے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے سماج میں ہماری زبان سے جدا کسی دوسری قوت کی فکر اور زبان کا قبضہ ہے صوبے میں قومی وجود سے دور ہوکر نئے کلچر کو پروان چڑھایا جارہا ہے جو مستقبل میں ہمارے قومی وجود کیلئے خطرناک ثابت ہوگا ۔ ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ زبانیں قوموں کو یکجا کرکے ایک قومی ایجنڈے کو آگے لیکر بڑھتی ہیں مگر ہمارے یہاں انتشار نے ارتقاء کے عمل کو روک دیا ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے تجویز دی کہ علمی لوگ علمی تقریبات کو ایک ادارے کے اندر کرنے کی بجائے گلی محلوں میں کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان علمی پروگرامز میں شرکت کریں اور اپنی زبانوں سے ان کے لگائو میں اضافہ ہو۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی زبان ، رابطے میں وسعت لاتے ہوئے اس کی ترقی وترویج میں اپنا کردار ادا کرنا چائیے اس میںا ہم کردار نوجوان ادا کرسکتے سکتے ہیں نوجوان مادری زبانوں پر توجہ دیتے ہوئے اپنا رشتہ کتاب سے جوڑ کر علم حاصل کرتے ہوئے قومی امور کو آگے بڑھائیں۔