|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2021

صوبائی حکومت بلوچستان میں ٹی بی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے موثر حکمت عملی مرتب کرنے جارہی ہے اور صوبائی حکومت نے اس بیماری سے نمٹنے کیلئے اختیار کردہ کامیاب عالمی حکمت عملی کے تجربات سے استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔گزشتہ روز ٹی بی کے خلاف منعقدہ عالمی کانفرنس کاانعقاد کیاگیا۔ کانفرنس میں ٹی بی کے تدارک کیلئے کام کرنے والے دیگر ممالک کے مندوبین نے بھی شرکت کی۔ انٹر نیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری صحت ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں ٹی بی کے مرض سے نمٹنے کیلئے علاج معالجے کے ساتھ ساتھ شعوری و آگاہی کی ترویج پر مشتمل حکمت عملی مرتب کی جارہی ہے۔

اور اس ضمن میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے توسط سے تمام اراکین اسمبلی کو اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں عوام تک موثر پیغام رسانی کے لئے کام کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ٹی بی سے متعلق عوام میں پائے جانے والے منفی رویوں کو تبدیل کرنے اور ملٹی سکٹوریل اپروچ کے ذریعے سنجیدہ اقدامات اپنانے کی مشترکہ کوششوں سے ٹی بی کے خلاف جنگ کو مؤثر بنانے پرزور دیاگیاجبکہ بلوچستان کی بکھری آبادی میں غربت کی عفریت کے باعث انسداد ٹی بی سرگرمیوں میں مشکلات کو بھی مدِ نظر رکھتے ہوئے چیلنجزسے نمٹنے کیلئے دستیاب وسائل کو ایسی حکمت عملی سے بروئے کار لائے جانے کے عزم کابھی اظہارکیاگیا۔

تاکہ حکومتی ثمرات عام آدمی تک پہنچانے میں مدد ملے اور بلوچستان سے ٹی بی کے تدارک کیلئے پوری قوت اور تندہی سے اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ اس موذی مرض کا خاتمہ کیا جاسکے۔بلوچستان میں یقینا صحت کے حوالے سے بہت سے چیلنجز موجود ہیں کیونکہ منتشر آبادی اور صحت کی سہولیات کے فقدان کے باعث عام لوگ معمولی بیماریوں سے انتقال کرجاتے ہیں۔ٹی بی جیسے مرض سے دیگر صوبے نکل چکے ہیں مگر بلوچستان میں ٹی بی سمیت دیگر امراض اب بھی لوگوں کی موت کی وجہ بن رہے ہیں۔ زچگی کے دوران خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد جان سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہے۔

غذائی قلت کے شکار ہونے کی وجہ سے کمزوری سے خواتین کی بڑی تعداد موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے اس کی بڑی وجہ غربت ہے۔صحت کے مراکز نہ ہونے کی وجہ سے بروقت علاج اور انہیں معالج سے بہترین مشورے نہیں ملتے جس کی وجہ سے انسانی بحران کا سامنا کرناپڑتا ہے حالانکہ بلوچستان میں صحت کے شعبہ کی بہتری کیلئے ایک خطیر رقم مختص کی گئی ہے سابقہ حکومت کے دور میں بھی صحت کے شعبہ کے لیے بجٹ میں اچھی خاصی رقم رکھی گئی تھی مگر یہ کہاں خرچ کی گئی اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اور آج بھی صحت کی سہولیات کے حوالے معاملات جوں کے توں ہیں۔

بلوچستان کے غریب عوام دور دراز علاقوں سے کوئٹہ میں علاج کی غرض سے آتے ہیں کسی حد تک کوئٹہ سول اسپتال، بی ایم سی میں انہیں علاج کے حوالے سے سہولیات میسر آتی ہیں مگر مکمل علاج معالجے کیلئے انہیں کراچی جیسے بڑے شہر وں کا رخ کرنا پڑتا ہے اور یہ سلسلہ طویل عرصہ سے چلتا آرہا ہے کیونکہ بلوچستان کے سرکاری اسپتالوں میں بھی جدید مشینری اور سہولیات موجود نہیں کہ شہریوں کی تسلی ہوسکے۔

بہرحال موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ٹی بی سمیت دیگر موذی امراض اور بیماریوں کے علاج کے حوالے سے سرکاری اسپتالوں میں سہولیات فراہم کرے خاص کر دور دراز علاقوں میں موجود صحت کے مراکز کو فعال بناکر غریب عوام کیلئے بروئے کارلایاجائے تاکہ انہیں اپنے ہی علاقے میں علاج کی سہولت میسر آسکے۔