کوئٹہ: بلوچستان ہائیکورٹ نے اردو زبان کو دفتری،تعلیمی اور سرکاری زبان قرار دینے کے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ممتاز قانون دان ایڈوکیٹ سید نذیر آغا کی آئینی درخواست پر وزیر اعلی بلوچستان،چیف سیکرٹری، چیئرمین بلوچستان پبلک سروس کمیشن، سیکرٹری تعلیم اور دیگر متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کر دیئے۔
منگل کو چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل ڈویژنل بیج نے آئین کے آرٹیکل 251کے نفاذ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ممتاز قانون دان سید نذیر آغا کے آئینی درخواست کی سماعت کی۔درخواست گزار نے اپنی آئینی درخواست میں موقف اپنایا کہ 1973کے آئین کے آرٹیکل 251پر بلوچستان حکومت عمل درآمد نہیں کر رہی ہیں۔
اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے 8ستمبر 2015کے فیصلے کے مطابق اردو زبان کو دفتری،سرکاری اور تعلیمی زبان بنانا ناگزیر اور عدالت عظمی کا حکم ہیں جس سے صوبائی حکومت روگردانی کر رہی ہیں، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل سید نذیر آغا ایڈوکیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اردو زبان کے متعلق اپنا فیصلہ دے چکی ہیں۔
اس لیے درخواست گزار فیصلے پر عمل درآمد کے لیے عدالت عظمی سے رجوع کریں جس پر سید نذیر آغا نے عدالت سے استدعا کی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر عمل درآمد اور آئین کے آرٹیکل 251کا نفاذ بلوچستان حکومت کی ذمہ داری ہے۔
چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کے متعلق اہل زبان سے باضاطہ ٹریننگ لینی ہو گی ایسا نہ ہوں کہ اردو کو نافذ کرتے ہوئے اردو زبان کا حلیہ بگاڑ دیں،بلوچستان ہائیکورٹ نے سید نذیر آغا ایڈوکیٹ کی آئینی درخواست پرفریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔