|

وقتِ اشاعت :   February 24 – 2021

چمن : محکمہ صحت کو خسرہ کی وباء سے نمٹنے کے لیے تعاون فراہم کرتے ہوئے میڈیسنزسانزفرٹییئرز/طبیبان بے سرحد(ایم ایس ایف) نے چمن ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ضلع قلعہ عبداللہ میں 30بستروں پر مشتمل خصوصی آئسولیشن قائم کی ہے۔

ایم ایس ایف خسرہ کے مریض بچوں کے لیے قائم کردہ وارڈ کو مکمل طور پر چلا رہی ہے اور اس کی جانب سے طبی عملہ، ادویات، حفاظتی لباس (پی پی ای)اور پانی وبجلی کی فراہمی اور ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی کے نظام اور صحت کے امور پر آگاہی کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ یہ وارڈ جنوری کے پہلے ہفتے میں قائم کی گئی اور اب تک اس میں 125بچوں کو داخل کر کے خسرہ کا علاج کیا گیا ہے اور250بچوں کو ادویات فراہم کر کے گھر بھیجا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں اس اثنا میں ایم ایس ایف نے 756بچوں کو خسرہ سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے بھی لگائے ہیں۔

خسرہ ایک وائرل انفیکشن ہے جو سانس کے نظام میں شروع ہوتا ہے۔ اس کی علامات 10سے 14دن میں ظاہر ہوتی ہیں اور ان علامات میں ناک کا بہنا، کھانسی، آنکھوں کی انفیکشن، خارش اور تیز بخار شامل ہیں۔ 20فیصد تک مریضوں میں خسرہ سنگین اور ممکنہ طور پر مہلک پچیدگیاں پیدا کرتا ہے بشمول شدید اسہال، سانس کی نالی میں نمونیا جیسا انفیکشن، اندھاپن اور دماغ کی سوزش۔خسرہ کا سب سے زیادہ خطرہ ان کو ہے جنہوں نے حفاظتی ٹیکے کم یا بالکل نہ لگوائے ہوں، اور یہ بیماری خصوصی طور پر پانچ سال سے کم عمر بچوں کو متاثر کرتی ہے۔

چمن میں سال بھر خسرہ کے مریض سامنے آتے ہیں لہذا ایم ایس ایف نے محکمہ صحت کو تعاون فراہم کرتے ہوئے پہلے ہی قلعہ عبداللہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں اپنی بچوں کی وارڈ میں خسرہ کے مریضوں کے لیے پانچ بستروں پر مشتمل آئسولیشن یونٹ قائم کر رکھا ہے۔ دسمبر2020میں خسرہ کے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو آیا، اور ایک ماہ میں ضلع قلعہ عبداللہ میں ایک ہزار سے زائد خسرہ کے کیس سامنے آئے۔

ایم ایس ایف کے چمن میں میڈیکل فوکل پرسن ڈاکٹر میر وائز نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خسرہ کی وباء کے حوالہ سے ہماری ہنگامی خدمات ایم ایس ایف کے اس عزم کا حصہ ہے کہ ہم محکمہ صحت کو ہنگامی حالات بشمول قدرتی آفات اور وباؤں کے پھوٹنے پر تعاون فراہم کریں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے آئسولیشن وارڈ کو وباء سے نمٹنے کے لیے دو ماہ کے لیے بڑھایا ہے لیکن خسرہ کے مریضوں کا علاج ہماری مستقل سرگرمیوں میں چلتا رہے گا اور لوگوں کو مریض بچوں کو دوسروں سے الگ کرنے اور ان کا جلد از جلد علاج جیسے اقدامات لینے چاہئیں تاکہ اس وباء پر قابو پایا جا سکے۔

خسرہ کے زیادہ تر مریض دو سے تین ہفتے میں ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن دُنیا بھر میں وسائل کی کمیابی کی وجہ سے 15فیصد مریض اس بیماری سے پیدا ہونے والی پچیدگیوں کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر کے وہ بچے جن کو کوئی اور بیماری ہو یا جو غذائیت کی کمی کا شکار ہوں زیادہ تر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر میر وائز کا کہنا تھا کہ ہم تمام والدین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوائیں تاکہ نہ صرف موجودہ وباء کو روکا جا سکے بلکہ اس کی آئندہ بھی روک تھام کی جا سکے۔ ڈاکٹر میر وائز نے مزید بتایا کہ محکمہ صحت کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کو تعاون فراہم کرتے ہوئے ایم ایس ایف نے سال2020میں 22830بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جن میں سے 2631بچوں کو خسرہ سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے گئے۔

چمن ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ایم ایس ایف ماں اور بچے کی صحت کی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ سال 2007سے ایم ایس ایف 24گھنٹے کھلا رہنے والا زچہ و بچہ مرکز چلا رہی ہے جہاں پچیدہ زچگیوں کے لیے آپریشن کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایم ایس ایف بچوں کی وارڈ، نومولود بچوں کا شعبہ اور ایمرجنسی روم میں زخمی مریضوں کے علاج کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ غذائیت کی کمی کے شکار کو غذائی پروگرام میں داخل کیا جاتا ہے اور ایم ایس ایف لیبارٹری، بلڈ بنک، پانی کی فراہمی اور صفائی ستھرائی کے نظام کو بھی چلاتی ہے۔ عورتوں کی اوپی ڈی ایم ایس ایف کے طبی معیار کے مطابق محکمہ صحت کا عملہ چلاتا ہے۔

سال 2020میں ایم ایس ایف کی جانب سے چمن میں بشمول 346آپریشن 4591بچوں کی پیدائش میں طبی معاونت فراہم کی گئی، 936بچوں کو ہسپتال میں داخل کیا گیا، 13337زخمی مریضوں کو دیکھ بھال فراہم کی گئی، 10785طبی مشاورتیں دی گئی اور 12807آگاہی کے سیشن منعقد کیے گئے۔

ایم ایس ایف ایک بین الاقوامی طبی اور انسانی خدمات فراہم کرنے والی تنظیم ہے جو مسلح تنازعات، بیماریوں، قدرتی آفات کے متاثرین اور صحت کی سہولیات سے محروم افراد کو ہنگامی طبی امداد فراہم کرتی ہے۔ ایم ایس ایف نے پاکستان میں طبی خدمات کی فراہمی کا کام 1986 میں شروع کیاتھا اور فی الوقت یہ بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سندھ میں معیاری طبی امداد فراہم کرتی ہے۔ ایم ایس ایف ملک بھر میں صحت کے حکام اور آفات سے نمٹنے والے حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور اس کی سرگرمیاں، کسی حکومتی یا ادارے کی امداد کے بغیر، مکمل طور پر نجی عطیات کے ذریعے چلائی جاتی ہیں۔