کوئٹہ: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر و سینیٹر(ر) امان اللہ کنرانی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آج سپریم کورٹ کا فیصلہ نہایت متوازن اور حکومت کے لئے سبکی کا باعث ہے جس نے واضح طور پر آرٹیکل 226 کی تشریح و صراحت کے لئے عدالت عظمی سے رجوع کیا تھا کہ سینٹ الیکشن پر اس شق یعنی خفیہ و رازداری ووٹ کا اطلاق نہ ہو بلکہ ہاتھ کھڑا کرکے اعلانیہ ووٹ کی اجازت دینے کی استدعا کی تھی۔
جسکو عدالت نے پارلیمان کے اختیارات کے اندر مداخلت و اپنی عدالتی تجاوز سمجھتے ہوئے اس کو قابل پزیرائی نہیں سمجھا صرف حکومت کی موم کی ناک رکھنے کے لئے الیکشن کمیشن کو آئین و سپریم کورٹ کے نظائر سے استفادہ کرنے کی ہدایت کردی جس پر عملدرآمد ایک طویل مدتی پروگرام و انتخابی اصلاحات سے جْڑی ہوئی ہے جس پر ایک دن کے اندر آنا’’فانا’’ عملدرآمد ناممکن ہے۔
تاہم میری نظر میں دراصل سینٹ کے انتخاب پیسہ کے استعمال کا بلوچستان کے تناظر میں کوئی اہم نہیں جس کے ذمہ دار وفاقی و صوبائی حکومت خود ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ تین سال قبل بلوچستان سے سینٹر کیسے منتخب ہوئے چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کیسے ناکام ہوئی اور ووٹوں کے تناسب کے زریعے سیٹوں کی تقسیم و نتائج پر پہلے عمل کا خیال کیوں نہیں آیا ۔
بلوچستان میں پیسے کے بل بوتے پر سینٹ کا الیکشن لڑنے والے کون ہیں،کون کون سی پارٹیاں انکی پشت پر ہیں،پھر بلوچستان ایک کثیرالقومی صوبہ ہونے کے ناطے دو بڑے اقوام بلوچ و پشتون و ہزارہ،سیٹلر کی آبادی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کا تناسب کیا ہے اور سینٹ میں ان اقوام کی نمائندگی کرنے والے کس تناسب سے امیدوار ہیں انہوں نے کہاکہ میرا مطالبہ ہے۔
بلوچستان کی حکومت و اپوزیشن پیسوں کے استعمال و اس کے تدارک سے پہلے اپنی دھرتی سے تعلق و وفا و تناسب کی کے توازن کو ترجیح دیں قوموں کے حقوق وفاق سے مانگنے والے اپنے صوبے میں قوموں کی نمائندگی کے حق کا دفاع کریں۔
صوبہ سے باہر کے افراد کی حوصلہ افزائی اور بلوچ و پشتون اقوام کی واضح اکثریت کے باوجود غیروں کواس کے حق سے زیادہ نواز نا صوبے سے غداری و ناقابل معافی جر م و سیاسی خودکشی ہے۔