کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاہے کہ آئین اور جمہوریت ہمیں ڈسپلن دیتاہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے وہ ڈسپلن چھوڑ دی ہے اورلوگ جہتوں میں تقسیم ہوگئے ،معاشرے میں پایاجانے والا تشدد خطرناک ہے جس کے خاتمے کیلئے ہم سب کو مل کر کرداراداکرنے کی ضرورت ہے ،عوام کو انصاف فراہم کرنے کا پہلا زینہ حکومت دوسرا عدلیہ ہے۔
حکومت سے مایوسی کی صورت میں لوگ عدلیہ سے رجوع کرتے ہیں ،انصاف میں کوتاہی برتنے سے اس کے منفی اثرات مرتب ہوںگے ،وکیل اور جج کے بغیر عدالتی نظام نہیں چل سکتا،وکلاء عدالتوں میں مکمل تیاری کے ساتھ پیش ہوں تو کیس جلد ختم ہوگا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ کچہری میں شہدا آرکیڈ کی عمارت کی اندورنی و بیرونی تجدید ، تزئین و آرائش کے کام کی بعد از تکمیل افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب سے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز جسٹس نعیم اختر افغان ،جسٹس محمد کامران خان ملاخیل، پاکستان بار کونسل کے ممبر منیر احمد کاکڑودیگر نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز جسٹس محمدہاشم خان کاکڑ، جسٹس محمد اعجاز سواتی، جسٹس عبداللہ بلوچ،جسٹس روزی خان بڑیچ، جسٹس عبدالحمید بلوچ، پاکستان بار کونسل کے ممبر منیر احمد کاکڑ۔
بلوچستان بار کونسل کے وائس قاسم گاجیزئی، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر باسط شاہ، کوئٹہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اقبال کاسی ایڈووکیٹ،جنرل سیکرٹری علی حسن بگٹی، صوبائی محتسب عبدالغنی خلجی، خواتین محتسب صابرہ اسلام ایڈووکیٹ، سیشن ججز ،جوڈیشل مجسٹریٹس اور وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھیں۔بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بدقسمتی سے لوگ جہتوں میں بھٹ چکے ہیں گروپس بن گئے ہیں۔
تمام مسائل کا حل آئین میں ہے ،انہوں نے کہاکہ 8اگست کے سانحہ سمیت بہت سے حادثات نے ہم سے ہمارے اپنوں کو جدا کیا ہے معاشرے میں پایا جانے والا تشدد خطرناک ہے جس کے خاتمے کیلئے ہم سب کو مل کر بیٹھنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمارا ملک پرامن رہے، بلڈنگ بنتے رہتے ہیں میں بحیثیت چیف جسٹس اور ذاتی حیثیت میں ہر شخص کا شکر گزار ہوں بلڈنگ بنانے سے وہ مقصد جس کیلئے ہم بیٹھے ہیں۔
کیا وہ حاصل ہوں گے وہ مقاصد صرف ہماری سوچ اور عمل سے ہی پورے ہوں گے قانون آئین اور لوگوں کی مشکلات کو دیکھنا ہے کوئی سائل عدالت اپنی خوشی سے نہیں آتا اگر پھر بھی ہم انصاف کی فراہمی میں کوتاہی برتیں گے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے انصاف فراہم کرنا کوئی احسان نہیں ہے جو مراعات، تنخواہ اور عزت ملی ہے اگر انصاف کے ساتھ آگے بڑھتے رہے تو آخرت بھی سنور جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ججز کی کارکردگی خوش آئند ہے لیکن اس کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے مجھے تب خوشی ہوگی جب کیسز کی شرح صفر پر ہو 199 کی مکمل عملداری یقینی بنائیں گے پہلی سیڑھی حکومت ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو جائز حقوق دے دوسری سیڑھی عدلیہ ہے جب حکومت حقوق نہیں دیتے تو لوگ عدلیہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وکلا اور ججز میں سے کسی ایک کے بغیر سسٹم نہیں چلایا جا سکتا، جمہوریت اور آئین ایک ڈسپلن دیتا ہے لیکن افسوس ہم وہ ڈسپلن چھوڑ رہے ہیں، افسوس وکیل کے ہاتھ میں کتاب نہیں ہوتا حالانکہ وکیل کا ہتھیار ہی وہ کتاب ہے وکلا سے شکوہ ہے کہ وہ مکمل تیاری کے ساتھ نہیں آتے انہوں نے کہا کہ بار ایسوسی ایشن وکلا کی فلاح و بہبود کیلئے ہوتا ہے۔
جبکہ کونسل وکلا کی قانونی معاملات کیلئے ہوتا ہے بار کونسل کے اصل روح کو لانے کی ضرورت ہے وکلا کے اجتماعی مسائل کیلئے باڈیز کو ترجیح دیں گے ہم ہر جائز مسائل کے حل کیلئے وکلا کے ساتھ ہیں ہم کسی علیحدہ نہیں اور نہ ہی کوئی ہم سے علیحدہ ہے ہمیں ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض منصبی انجام دینے ہوں گے ،انہوں نے کہاکہ وہ انسان عظیم ہے جس نے اپنی غلطی کو تسلیم کرلی ۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ عدلیہ سے مراد صرف ججز نہیں بلکہ وکلا بھی ہے وکلا اور ججز ایک ہی جسم ہے وکیل یا جج دونوں لازم و ملزوم ہیں جس کا کام عوام کو انصاف فراہم کرنا ہے وکالت کا پیشہ اتنا ہی مقدس ہے جتنا ایک جج کا منصب ہے، وکیل کی پہلی درسگاہ نچلی سطح کی عدالتیں ہیں وہ ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کرے، سائل نامراد واپس جانے سے ایک تکلیف ہوتی ہے۔
وکلا کو بلڈنگ ملی اب اس میں روح ڈالنا وکلا کی ذمہ داری ہے، عدالت کے بائیکاٹ سے سائل کو مشکلات ہے وکلا کوئی باوقار راستہ اپنائیں یہ ادارہ تنزلی کی طرف جا رہا ہے اقدار کو پرواز چڑھائیں جس کیلئے وکلا اور ججز نے مل کر اس کو ادارہ بنانا ہے بلوچستان کے طول و عرض میں جوڈیشل کمپلیکسز بن گئے ہیں ججز اور وکلا سے درخواست ہے کہ وہ اپنی اقدار مینٹین کرے ہم نے عام عوام کو ڈیلیور کرنا ہے۔
جدید دور میں داخل ہوئے ہیں ڈاکومنٹیشن پروسس بہت سے ملکوں میں صفر ہے لہذا وکلا اور ججز انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک ہوں ۔ اس موقع پر پاکستان بار کونسل کے ممبر منیراحمد کاکڑ ایڈووکیٹ نے کہاکہ آئین اور قانون کے دائرہ کارمیں رہتے ہوئے عوام کوانصاف فراہم کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے ۔