کوئٹہ: بلوچستان کے شعراء وادیب اورلکھاریوں نے عطاء شادکو زبردست اندازمیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عطاء شادنے بلوچی زبان وادب کے لئے جوخدمات سرانجام دیئے وہ شایدکسی نے نہیں کیا، انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے سردارانہ نظام کیخلاف کھل کراپنے خیالات کااظہارکیا، عطاء شناسی کیلئے عطاء شادکی بلوچی شاعری کابغورمطالعہ ضروری ہے۔
مادرسری نظام سے لے کر آج تک عورت معاشرے میں غلامی کی زندگی گزاررہی ہے ، جوصبح سے شام تک باورچی خانے میںکام کرتی ہے جس کااس کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا، مادری زبان نہ صرف اظہاررائے بلکہ رابطے اورحصول اقتدارکاذریعہ ہے جس کے ذریعے حکمران طبقہ اپنی سوچ کو لوگوںپرمسلط کرتے ہیں، مادری زبانوںکی بقاء کودرپیش خطرات کوختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ زبانوںکوسرکاری حیثیت دے کر ان میں تعلیم کورائج کیاجائے ۔
ان خیالات کااظہارسنگت اکیڈمی کے سیکریٹری جنرل جاویداختر، بلوچی زبان کے نامورشاعرڈاکٹرشاہ محمدمری، ڈاکٹرمنیراحمد،وحیدظہیر، جیندخان جمالدینی ددیگر نے اتوار کے روزسنگت اکیڈمی آف سائنسزکے زیراہتمام پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں بیادعطاشاد، مادری زبانوں کی اہمیت اورخواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ ماہانہ نشست ’’پوہ ئُ زانت‘‘کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے کیا۔
نظامت کے فرائض اکیڈمی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل ڈاکٹرعطاء اللہ بزنجونے اسٹیج کے فرائض سرانجام دیئے۔ اس موقع پر ڈاکٹرمنیراحمد نے فیض احمد فیض کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ عطاء شادجیسے شاعروں کی موجودگی میںاردوزبان کامستقبل روشن اورتابناک ہے ، انہوں نے کہا کہ شاعری کسی بھی علاقے کی ثقافت اورلوگوں کے بودوباش کی عکاسی کرتاہے اورشاعری عطاء شادکی زندگی کااندازبن چکاتھا۔
عطا شاد نے اپنے خوبصورت کلام ،اورالفاظ کے چنائو سے مظلوموں کی ترجمانی کی ان کے کلام سے بلوچستان بولتاہے ، ہمیں اس کو محدودکرنے کی بجائے مزیدآگے پھیلانے کی ضرورت ہے،۔ اس موقع پر وحید ظہیرنے کہا کہ عطاء شادچٹانوںجیسا مضبوط مگرانتہائی نرم دل انسان بھی تھے، انہیں اپنے قریبی دوستوں سے زیادہ رنج ملا، انہوں نے کہا کہ عطاء شاد نے آرٹس کونسل، شاعری، ادب وفن اوراسٹیج ڈراموں کوفروغ دینے کیلئے اپناکرداراداکیا۔
اگرہم عطاء شادکوبغورمطالعہ کریں توان کی بہترین بلوچی شاعری سے واقف ہوںگے اورمیں نے عطاء شادمیرے استاد اوربہترین دوست تھے جن کیساتھ میں نے محکمہ اطلاعات میںاچھا وقت گزرا، انہوں نے کہا کہ عطاء شادنے خاکسار انسان تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی تکبرکامعیارنہیں رکھابلکہ شعراء وادیبوں سے مل کربیوروکریسی کاخمارتوڑڈالا۔
اس موقع پر بلوچی زبان کے نامورشاعروادیب ڈاکٹرشاہ محمدمری نے کہا کہ عطاع شادنے میرومعتبر اورسردارانہ نظام کیخلاف اپنی شاعری کے ذریعے آوازبلندکرکے تبدیلی کاآغازکیا، شادکی رومانوی شاعری پرکام توہوامگران کی شاعری کے بلوچ پہلو سے کوئی واقف نہیں ہے بدقسمتی سے کسی بلوچ نے ان کے کلام کابغورمطالعہ نہیں کیااورآج ان کے جانے کے بعدان کی کلیات شائع ہورہے ہیں۔
انہوںنے کہا کہ ویتنام کی لوری پڑھ کرعطاء شادنے بلوچی لوری لکھی جوآج تک کسی نے نہیں لکھا، ہم ان کی بلوچی شاعری کے پہلوئوں کاجائزہ لیں تویہ بات عیاں ہوگی کہ وہ ہمارے امام اوررہبرتھے ، عطاء شاداپنی ذات میں ایک انجمن تھے جنہوں نے وہاں پر دادوصول کی جنہیں بلوچ کاعلم تک نہیں تھا، ہمیں عطاء شادکو مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پرعابدہ رحمان نے خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے مقالہ پڑھتے ہوئے کہا کہ صدیوں سے عورت اپنا وجود منوانے اور اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کر رہی ہے۔ فطرت نے ایک آزاد انسان کے طور پرپیدا لیکن پدرسری کے نظام نے ایک آزادانسان کویوں جکڑا کہ سانس لینا دشوار ہو گیا ہے ، انہوں نے کہا کہ 8 مارچ 1907ء کونیویارک میںسیکڑوں کارکن عورتوں نے مردوں کے مساوی حقوق کیلئے مظاہرہ کرنیوالی خواتین پرلاٹھی چارج کیا گیا۔
اور کئی عورتوں کو جیل میں ڈالا گیا۔، 1910ء میں سماجی کارکن کی سفارش سے 1907-1908ء میں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کے ساتھ اظہارِیکجہتی کے لیے ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا بین الاقوامی دن منایا جانے لگاجسے بعد میں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا۔اس کے باوجودعورت صبح سے شام تک کِچن میں بطور(Unpaid Labor)کے طورپرکام کرتی ہے۔
جس کااسے کوئی معاوضہ نہیں ملتا، خواتین کومواقع فراہم کرکے ہمیں اپنی اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پرعابد میرنے مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے سنگت پوہ زانت کے سیکریٹری نجیب سائرکامقالہ پڑھتے ہوئے کہا کہ قدرت نے انسان کو رابطے اور اظہار کیلئے زبان دی اوراسے ایک بولی سے نوازا۔ کچھ زبانیں مقبول ہوئیں، بعض خطرے سے دو چار، جبکہ بعض زبانیں وقت کے ساتھ ساتھ نا پید ہوگئیں۔
کچھ زبانیں عالمی اثرات کے زیر اثر آگئیں، کچھ لہجے بدلتی گئیں۔ انگریزی گو کہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان نہیں مگر اس نے بین الاقوامی طور پر خود کو منوایا اور لنگوا فرانکا کہلائی۔ پاکستان میں اردو رابطے کی زبان بن گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر زبان ایک قومی زبان ہے اور وہی رابطے کی زبان ہے۔ کیونکہ جن علاقوں میں لوگ قومی زبان نہیں بولتے وہاں ہر جگہ مادری زبان کا سہارا لیا جاتا ہے۔
مادری زبانوں کی تنظیموں اور اداروں کی سرپرستی ہونی چاہیے۔ اس موقع پر سنگت اکیڈمی کے سیکریٹری جنرل جاویداخترنے کہا کہ عطاء شاد حسن وجمال کے شاعرتھے مگرانہوں نے بدصورتی اورقباحت پر بھی کڑی تنقید کی، بلوچستان کے معاشی حالات اورلوگوں کی مشکلات کوبہتراندازمیں بیان کیااوراپنے کلام میں بلوچستان کاجولینڈاسکیپ پیش کیاوہ کہیں نہیں ملتا، انہوں نے کہا کہ عطاء شادکی شاعری میں ہم آہنگی ملتی ہے۔
گوکہ آج کل یونیورسٹی میں ڈگری کے حصول کیلئے عطاء شادپرمبنی تحریروں کی ضرورت پڑتی ہے مگرآج تک کسی نے علم وتحقیق پر مبنی ان کامطالعہ نہیں کیایہ ضروری ہے کہ ہم عطاء شادکی شاعری اورکلیات کابغورمطالعہ کرکے انہیں آگے لے آئیں۔بعدازاں آزادخان نے قراردادپیش کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ روزبروزبڑھتی مہنگائی کی روک تھام ، برما میں عوام کے جمہوری ھق پر شب خون مارنے کی مذمت ، ہندوستان میں کسان تحریک سے اظہاریکجہتی۔
مرکزی حکومت کی جانب سے ملازمین کی تنخواہوں میں25فیصداضافے کی منظوری کے بعد بلوچستان حکومت بھی اس پرمکمل عمل کرتے ہوئے ملازمین کی تنخواہوں میںاضافہ کرے، اورتمام مبینہ طورپرلاپتہ افراد کو بازیاب کرایاجائے جس کو شرکاء نے متفقہ طورپرمنظورکیا۔