بلوچستان میں سینیٹ کی خالی ہونے والی 12نشستوں میں سے حکومتی اتحادنے 8نشستوں پر میدان مارلی، اپوزیشن اتحاد حکومت کو سرپرائز دینے میں ناکام رہی۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو4نشستوں پر کامیابی ملی، مجموعی طورپر65اراکین اسمبلی نے ووٹ کاسٹ کیا ۔انتخابی نتائج کے مطابق جنرل کی 7نشستوں پر بلوچستان عوامی پارٹی کے منظور کاکڑ،سرفراز بگٹی،پرنس آغا احمد عمرزئی، آزاد امیدوارعبدالقادر،عوامی نیشنل پارٹی کے عمر فاروق کاسی،جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری،بی این پی کے قاسم رونجھونے کامیابی حاصل کی ۔
جبکہ ٹیکنوکریٹ کی2نشستوں پربلوچستان عوامی پارٹی کے سعید احمد ہاشمی اورجے یو آئی کے کامران مرتضیٰ نے کامیابی حاصل کی ۔خواتین کی دونشستوں پر بی اے پی کی ثمینہ ممتاز جبکہ آزاد امیدواراور پی ڈی ایم کی حمایت یافتہ ثمینہ احسان نے کامیابی حاصل کی۔ اقلیت کی ایک نشست پر بلوچستان عوامی پارٹی کے دنیش کمار کامیاب ہوئے۔بلوچستان کے 65کی ہاؤس میں ووٹ کے تناسب سے دونوں طرف سے اہداف وہی حاصل کئے گئے جس پر امیدوار کھڑے کئے گئے تھے جس میں 41حکومتی جبکہ 24اپوزیشن ارکان ہیں۔
بہرحال اس تمام انتخابی عمل کے دوران سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ کی جنرل نشست پر کامیابی حاصل کرنے والے آزاد امیدوار عبدالقادر کو جب پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کی جانب سے ٹکٹ جاری کیاگیا تو اس دوران پی ٹی آئی بلوچستان کا شدید ردعمل سامنے آیا اور انہوں نے اسے ایک کاروباری شخصیت قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی سے اس کی لاتعلقی کے حوالے سے اپنے تحفظات کااظہار کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ پارٹی ورکرز میں سے کسی ایک کوٹکٹ جاری کیاجائے چونکہ عبدالقادر کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اور ہم اس کی کسی صورت حمایت نہیں کرینگے ۔ جب عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لیاگیا تواس کا ڈھول خوب پیٹا گیا ،پی ٹی آئی کے مرکزی عہدیداران نے میڈیاپر آکر سینہ چوڑا کرکے یہ بات کہی کہ ہم ایک جمہوری جماعت ہیںاور وہی فیصلہ کرتے ہیں جس میں ہمارے عہدیداران اور ورکرز کی مشاورت شامل ہو اس لئے عبدالقادر پر جو اعتراضات سامنے آئے اس سے ٹکٹ واپس لیا گیا۔ ظہور آغا بھی پی ٹی آئی کے امیدوار کی حیثیت سے سینیٹ انتخاب میں حصہ لے رہے تھے بعد میں انہیں بھی دستبردار کرادیا گیا ،اسی طرح سردار یارمحمد رند نے اپنے صاحبزادے کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔
مگر الیکشن سے چند گھنٹے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان کے ساتھ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے سردار یارمحمدرند نے اپنے صاحبزادے کی دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کردی۔ سینٹ انتخابات میں باپ نے میدان مار لیااور بھرپور جشن بھی منایاگیا اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اتحادی حکومت نے جو اہداف مقرر کئے تھے انہیں حاصل کرلیا گیا ہے ، عبدالقادر بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے مشترکہ امیدوار تھے۔
مرکز اور صوبوں میں سخت مقابلہ تھا ، عبدالقادر کے کاغذات کی تجویز و تائید بی اے پی کے امیدواروں نے کی تھی۔عبدالقادر کی کامیابی بلوچستان عوامی پارٹی ، تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کی کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ چیئرمین سینٹ کا فیصلہ اتحادی جماعتوں سے مل کر کریں گے۔ ایک بات یہاں واضح ہوگئی کہ عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لینا صرف دکھاوا تھا کیونکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان الیکشن سے پہلے بھی یہ بات کہہ چکے تھے کہ عبدالقادر ہمارے مشترکہ امیدوار تھے اور بعد میں بھی اسی بات کو دہراکر میڈیا کے سامنے عبدالقادر کی جیت کو حکومتی جیت قرار دیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لینے کا ڈرامہ کیونکر رچایا گیا اور کس کی آنکھوں میں دھول جھونکاگیا جب وہ مشترکہ امیدوار تھے تو کیونکر وزیراعظم نے ٹکٹ واپس لینے کااعلان کیا اور پی ٹی آئی بلوچستان اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ گئی۔ ان تمام سوالات کے جوابات سامنے نہیں آئے اور نہ ہی اس کی وضاحت دینے کی زحمت کی گئی مگر ایک بات واضح ہوگئی کہ پی ٹی آئی بلوچستان اپنے فیصلوں میں کسی طور آزاد نہیں ہے۔
اور نہ ہی وہ کوئی بڑا دباؤ مرکزکے سامنے رکھ سکتی ہے ،یہ صرف عبدالقادر کے ٹکٹ کے معاملے کی بات نہیں بلکہ جب 2018ء کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل شروع ہونے جارہا تھا تب پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت کیا سوچ بچار کررہی تھی اور پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کس سمت پر تھی یہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اب عبدالقادر کی جیت پر جتنے بھی شادیانے بجائے جائیں مگر سوالات اپنی جگہ برقرار ہیں۔