ا لیکشن کمیشن نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نو منتخب سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے کامیابی کا نوٹیفکیشن فوری روکنے کی استدعا مسترد کردی۔چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو نوٹیفکیشن روکنے کی درخواست میں ترمیم کرنے کی ہدایت کردی۔دوران سماعت علی حیدر گیلانی کی ویڈیو چلائی گئی۔ ممبر الیکشن کمیشن ابراہیم قریشی نے کہا کہ سارے ویڈیوز میں کہیں بھی جیتنے والے امیدوار کا نام نہیں آرہا۔ جو لوگ ویڈیو میں نہیں انکے خلاف کیسے کارروائی کریں۔ ویڈیو میں یوسف رضا گیلانی یا ان کا نام کہیں نہیں ہے۔
اسی طرح کے کیس میں فیصلہ دے چکے ہیں، رشوت دینے اور لینے والا دونوں مرتکب ہیں۔ پہلے پیسے لینے والوں کو لائیں معاملہ پھر آگے بڑھے گا۔الیکشن کمیشن پاکستان نے ہدایت کی ہے کہ حیدر گیلانی ویڈیو اسکینڈل کیس میں ان لوگوں کو بھی فریق بنایا جائے جنہوں نے پیسے وصول کیے۔الیکشن کمیشن کے بینچ نے کہا کہ درخواست گزار پہلے ویڈیو کے دیگر کرداروں کو فریق بنائے، ہر شخص اپنے کئے کا جواب دہ ہے۔ممبر الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ہم آئین و قانون کے مطابق کیس پر فیصلہ دیں گے۔ جو کردار ویڈیو اور آڈیو میں ہیں انکے خلاف کارروائی ہوگی۔
پیسے لینے والے اب بھی اسمبلی میں عزت دار بن کر بیٹھے ہیں، جو پیسے لے کر مزے اڑا رہے ہیں پہلے انہیں تو لائیں۔ پہلے پیسے لینے والوں کو فریق بنائیں۔الیکشن کمیشن ہدایت کے ساتھ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کی درخواست ایک دن کیلئے ملتوی کردی۔پی ٹی آئی نے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کیلئے دو درخواستیں دائر کی ہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے فرخ حبیب، کنول شوزب اور ملیکہ بخاری نے الیکشن کمیشن میں درخواستیں دائر کی ہیں۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کیا جائے۔
مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ معاملہ انتہائی اہم نوعیت کا ہے۔کرپٹ پریکٹسز کے ذریعے جیتنے والا سینیٹر اب چیئرمین سینیٹ بننے کا خواہاں ہے، اس لیے پٹیشن کی 11 مارچ سے پہلے سماعت کی جائے۔واضح رہے کہ 2 روز قبل بھی پاکستان تحریک انصاف نے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کی درخواست دائر کی تھی۔اسلام آباد کی جنرل نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی نے پی ٹی آئی کے امیدوار حفیظ شیخ کو شکست دے دی تھی، یوسف گیلانی کو 169 ووٹ ملے جبکہ حفیظ شیخ کو 164 ووٹ ملے تھے۔گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی کیس سے متعلق جلد سماعت کی درخواست منظور کر لی تھی۔
بہرحال الیکشن کمیشن کی جانب سے واضح مؤقف سامنے آیا ہے کہ پہلے اراکین اسمبلی کو لایاجائے جنہوں نے پیسے لئے ہیں اور یہی بات اول روز سے کی جارہی ہے کہ جن اراکین اسمبلی نے رقم لے کر ووٹ فروخت کیا ہے وہ اب بھی حکومتی صف کے اندر موجود ہیں اور عزت دار بن کر عوامی نمائندے بنے بیٹھے ہیں جو ہمارے نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔ جس طرح وزیراعظم عمران خان بارہا یہ بات کہہ رہے ہیں کہ میں اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرکے چھوڑونگا اور کرپٹ عناصر کو کسی صورت نہیں چھوڑونگا اپوزیشن بنچ پر جاناپڑا تب بھی کرپشن کیخلاف جنگ کو جاری رکھونگا مگر جن اراکین نے وزیراعظم کو دوبارہ اعتماد کا ووٹ دیکر ان پراعتماد کیا ہے۔
تو کیسے ان کی وفاداری اور ایمانداری پر یقین کیاجاسکتا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے دوران ایک بارپھر وہ اپنے ضمیر کا سودا نہیںکرینگے ؟ ایسے انگنت سوالات موجود ہیں کہ ضمیر فروشی کا پیمانہ کیا ہے ؟کرپٹ ممبران کیخلاف احتساب کے معیارکا کس طرح تعین کیاجائے گا؟ سزا وجزا پر رعایت یا بلاتفریق کارروائی ضروری ہے؟ بہرحال ہمارے پارلیمانی نظام میں کرپشن کی وجہ احتساب کا دوہرا معیار ہے صاحب اقتدار اپنی حمایت کھوجانے کے ڈر سے اپنے ساتھیوں کا احتساب نہیں کرتے جبکہ اپوزیشن بھی اپنی پوزیشن کوکمزور نہ کرنے کی وجہ سے کارروائی سے گریزاں ہے۔
کیونکہ چیئرمین سینیٹ کے گزشتہ انتخاب کے دوران صادق سنجرانی کی جیت کے بعد اپوزیشن نے اپنی صف میں موجود وفاداری اور ایمانداری فروخت کرنے والے ممبران کے نام سامنے نہیں لائے بلکہ آج بھی ان کے ساتھ رہ کر ووٹ کو عزت دو کی تحریک چلارہے ہیں ۔ اس طرح دونوں طرف کرپٹ اراکین مزے سے اپنی کرسیوں پر براجمان ہیں اور اداروں پر انگلیاں دونوں اطراف سے اٹھائی جارہی ہیں اور کئی دہائیوں سے تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اداروں کو اپنے مفادات کیلئے کس طرح ان سیاسی جماعتوں نے استعمال کیا اور ان کی ساکھ کو متاثر کرکے رکھ دیا۔
آج ان پر سوال کرنے سے پہلے سیاستدانوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ انہوں نے خود اس نظام کے ساتھ کتنا بڑا کھلواڑ کیا ہے اب کون صادق اور امین پارسا سب ہی پارلیمان میں موجود ہیں۔