کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ مرکزکی لاٹھی بے آوازنہیں بلکہ دھماکہ کی صورت میں پڑھتی ہے جس سے شاہد65سالوں میں محفوظ کرنے کی زحمت نہیں کی گئی حکمران اپنے مفادات کی خاطراگرترامیم لاسکتے ہیں توبلوچستان کے حقوق کے تحفظ کیلئے آئینی ترامیم لانے میں کیاقباہت ہے اگربلوچستان کے مالک ہونے کے دعوؤں کی بجائے عملی طورپرمالک بنناہے توآج ہمیں اس ضمن میں فیصلے کرناہونگے ان خیالات کااظہارانہوں نے بلوچستان اسمبلی میں گوادرکاشغرروٹ سے متعلق پیش کی گئی قراردادپراظہارخیال کرتے ہوئے کیاانہوں نے کہاکہ آج ہمیں احساس ہورہاہے کہ بلوچستان میں کئے گئے عوامل کے پیچھے کونسی قوتیں ہیں اللہ کی لاٹھی بے آوازہوتی ہیں مگرمرکزکی لاٹھی بڑے دھماکوں کے ساتھ پڑھتی ہے مگرہم یاتوکانوں سے بہرے ہوچکے ہیںیاپھرہمیں اس لاٹھی کااحساس نہیں ہوتامگرمرکز نے ہمیشہ ہمیں احساس دلایاہے جنرل مشرف کے دورمیں گوادرکی ڈویلپمنٹ پرجشن منائے گئے کہ یہاں لوگ ترقی یافتہ اورخوش حال ہونگے اورشاہدہوئے بھی ہو گوادرپورٹ اورگوادرہاؤسنگ سکیم کے نام پروزراء اورمشیرمستفیدہوئے ہونگے مگرآج تک گوادرکے باسیوں کی حالت کسی نے نہیں دیکھی گوادرمیں ترقی کے دعوؤں کے باوجود لوگ پینے کے پانی سے محروم ہے نواب مگسی کے دورمیں بنایاگیاواحدڈیم وہاں موجود ہے جوباران رحمت میں ہی عوامی کوپانی سپلائی کرسکتاہے انہوں نے کہاکہ گوادرکی ترقی کے اعلان کے بعدیہاں شورش میں اضافہ ہوااس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں پہلے بھی لوگ اپنے حقوق کے حصول کیلئے نعروں پارلیمنٹ اورجلسے جلوسوں کاسہارالے رہے تھے اورکچھ ساتھیوں نے بندوق کاسہارابھی لیادیکھنایہ ہے کہ اس دوران کتنے بچے یتیم ہوئے کتنی مائیں بیوہ ہوئی ہم روٹ پربحث کررہے ہیں کہ کونساروٹ ہوناچاہئے اوراس سے کس کوکتنافائدہ ہوناچاہئے ہم اس رسی کی لمبائی اورخو بصورتی کودیکھ رہے ہیں مگرجس کے گلے میںیہ رسی ڈالی جارہی ہے اس کی جانب توجہ نہیں دے رہے کہ اس رسی سے اسے کتنی تکلیف پہنچے گی انہوں نے کہاہک انتہائی افسوس ناک آمرہے کہ ہم یہاں ایک چوراہیں کی تعمیرکیلئے بھی مرکز کے محتاج ہے اورہم یہاں بلوچستان کے مالک ہونے کی بات کرتے ہیں درحقیقت نہ توہم پہلے مالک تھے اورنہ اب مالک ہے تاہم آنے والے کل میں اگرہمیں بلوچستان کاماملک بنناہے توہمیںآج فیصلہ کرناہوگاہم گوادرکاشغرروٹ کی حمایت یامخالفت نہیں کریں گے ہم محض اس روٹ کی حمایت کریں گے جس کے ذریعے اہل بلوچستان کوفائدہ حاصل ہواب سرسری مفادات کی خاطربلوچستان کافیصلہ نہیں کیاجاسکتاانہوں نے کہاکہ یہ پہلامنصوبہ نہیں جومرکز کے ہاتھ میں ہے بلکہ اس سے قبل بھی مرکز نے ہمارے منصوبوں کواپنے ہاتھ میں لیکرہم پراحسانات کئے ہیں سوئی میں گیس دریافت ہونے کے بعدملک کے کونے کونے تک پہنچی مگربلوچستان کے ایسے کتنے علاقے ہیں جوآج بھی اسے محروم ہیں گیس تودورکی بات ہمیں گیس پائپ لائن کی چوکیداری کابھی حق نہیں مختلف پیکجز کی شکل میں مرکزکی جانب سے دی جانے والی خیرات کے باوجود مرکز ہمارامقروض ہونے کے باوجود بھی ہم پراحسانات ٹھوکتے جارہے ہیں جس اسمبلی کے توسط سے جتنی بھی قراردادیں لائی گئی انہیں صرف ردی کی ٹوکری میں جگہ ملی انہوں نے کہاکہ گوادرکاشغرروٹ پرجہاں تمام سیاسی جماعتیں متفق ہے وہی یہ تاثردیاجارہاہے کہ یہ روٹ محفوظ نہیں ہمیں بتایاجائے کہ کیایہاں سکول بازارمدارس مساجد امام بارگاہ ائیربیس اورجی ایچ کیومحفوظ ہے اوراگرنہیں توکیاانہیں تالہ لگادیاجائے انہوں نے کہاکہ یہاں کبھی بھی ایران سے آنے والی ٹرانسمیشن لائن کومزاحمت کارنہیں اڑاتے صرف وہی ٹرانسمیشن لائن اڑائی جاتی ہے جوپنجاب سے آتی ہے اورجب ٹرانسمیشن لائن تباہ ہوجاتی ہے توبچ جانے والی بجلی کافائدہ کس کوہوتاہے دراصل یہاں سلطنت روم سے اختیارات حاصل کرنے کی جدوجہد ہے اوردیکھنایہ ہے کہ وہ اختیارات ہمیں کون دلائیگا حکومت اورحکمران اپنی ضرورت کے مطابق ایک دن میںآئینی ترامیم لے آتے ہیں4سالوں میں ہم 18ویںآئینی ترمیم سے لیکر21ویںآئینی ترمیم تک پہنچ چکے ہیں اگرحکمران بلوچستان کے مسئلے پراتنے ہی ہلکان ہوئے جارہے ہیں توپوری 22ویںآئینی ترمیم نہ سہی ساڑھے 21ویں آئینی ترمیم ہی لے آئے ہم نیتوں کوگزشتہ 65سالوں سے دیکھ رہے ہیںآج ایوان کویہ فیصلہ کرناہوگاکہ ساحل وسائل کامکمل اختیارحاصل کرے توہم اس قراردادکی حمایت کرینگے ہم یہ اختیارات صوبائی حکومت کیلئے مانگ رہے ہیں پرہم حکومت میں نہیں مگرپھربھی ہمیں پہلے بلوچستان کے سامنے سرخروہوناہے تواس قراردادکے ذریعے ساحل وسائل پرمکمل اختیارحاصل کرناہوگا۔
بلوچستان کے مالک ہیں تو آج ہمیں تحفظ کیلئے اقدامات کرنے ہونگے ،مرکز کی لاٹھی بے آواز ہیں دھماکے سے بڑھتی ہے اختیاررات آج بھی وفاق کے پاس ہیں،اخترمینگل
وقتِ اشاعت : February 27 – 2015