تربت: تربت سول سوسائٹی کے زیراہتمام سیمینار کا انعقاد، بلوچ دانش ور ڈاکٹر کہور خان، سماجی کارکن کامریڈ نغمہ شیخ، ڈاکٹر تاج بلوچ و دیگر نے خطاب کیا۔ تربت سول سوسائٹی کی طرف سے عورتوں کی خودمختاری اور صنفی مساوات کے موضوع پر گرلز ماڈل ہائی سکول میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس بلوچ دانش ور ڈاکٹر کہور خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جینڈر سماجی طور پر تشکیل کردہ لفظ ہے۔
جینڈر سے مراد صرف عورت نہیں بلکہ عورت جینڈر کا حصہ ہے اور جینڈر کے 7 سے 8 حصہ ہیں جس میں ٹرانس جینڈر بھی آتی ہے، عورت حیاتیاتی طور پر ایک ایک تخلیق ہے جس کے تولیدی اور جنسی آلات مختلف ہیں مگر وہ ایک انسان ہے جیسا مرد ہیں وہ اپنی دیگر صفات میں کسی طور پر کمتر نہیں۔انہوں نے کہاکہ امپاورمنٹ سے مراد ایک بااختیار عورت جن کو اپنے ارد گرد وسائل پر نہ صرف دسترس ہو بلکہ استعمال کا اختیار بھی رکھتی ہو۔
جن میں سوشل امپاورمنٹ، ایجوکیشنل امپاورمنٹ، پولیٹیکل امپاورمنٹ، اکنامک امپاورمنٹ اور سائیکولو جیکل امپاورمنٹ شامل ہیں جن پر عورت کا بہ حیثیت انسان اختیار ہو ان 5 شعبوں میں مذید کام کرنے کی ضرورت ہے، انہوں کہا کہ عورتوں کی حقوق کے متعلق دو مختلف نظریہ موجود ہیں ایک سوشلسٹ اور دوسرا پروگریسو اپروچ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا جسم میری مرضی کو آج غلطہ تشریح کیا جارہا ہے۔
بنیادی طورپر یہ نعرہ 1923 سے 1970 تک برتھ کنٹرول نظریہ کے تحت مائی باڈی مائی چوائس تھا جس کا مطلب بچہ پیدا کرنے کا اختیار عورت کو ہی حاصل ہونا چاہیے مگر اس کے ترجمے میرا جسم میری مرضی سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوا ہے، انہوں کہا کہ شاؤنسٹ مردوں نے یہ مائنڈ سیٹ پیدا کیا کہ عورت کمزور اور مرد طاقت ور ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے بلوچ معاشرہ میں عورت نے مرد کے اختیارات کھبی چیلنچ نہیں کیے جب عورت مرد کے اختیارات چیلنج کرے گا۔
تب ہی پتہ چلے گا کہ عورت کی حیثیت کیا ہے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے معروف سوشل ایکٹیوسٹ و سیاسی کارکن نغمہ شیخ نے کہا کہ 8 مارچ یوم عورت کے طور پر یوں ہی نہیں منایا جاتا اس کے پیچھے جدوجھد اور قربانیوں کی ایل طویل سفر ہے مگر اب 8 مارچ کو محض این جی او کا دن بنایا گیا ہے اپنی اصلیت میں یہ دن این جی او کا نہیں بلکہ محنت کش عورت کا دن ہے،انہوں کہا کہ ملک کی دیگر علاقوں کی نسبت بلوچستان میں عورتوں کے مسائل الگ ہیں۔
یہاں عورت سماج کے ساتھ جبر اور مظالم کے خلاف بھی صف آرا ہے، سیاسی محاذ سنبھالے عورت اپنی بقاء کے ساتھ قومی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے، یہاں کی عورتوں میں سیاسی شعور سب سے زیادہ ہے، کریمہ بلوچ جیسی باہمت اور بہادر عورت جو زندگی آخری سانس تک لڑتی رہی ہم سب کے لیے رول ماڈل نہیں بلکہ لیڈر ہیں، انہوں کہاکہ بلوچستان میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور وفاقی اداروں میں بلوچ نوجوانوں کی تعداد ایک سوالیہ نشان ہے ۔
جسے ہمیشہ کے لیے چھوڑا گیا ہے، انہوں کہاکہ پاکستان میں 50 لاکھ عورتیں روزانہ جسمانی تشدد اور 90 لاکھ زہنی ازیت کا شکار ہوتی ہیں ان میں سے بلوچ عورت دہری زہنی ازیت کا شکار ہے کیوں کہ وہ اپنے مسنگ پران کی بازیابی کے لیے روز ایک شہر میں احتجاج کنان ہے، ملک میں 80 فیصد زچگیاں اب تک گھروں میں ہی ہوتی ہیں جو المیہ ہر تیسری گھر میں ایک عورت روزانہ کسی نہ کسی طرح تشدد کا شکار بنتی ہے۔
انہوں کہا کہ وومن امپاورمنٹ کا مطلب ہے کہ عورت سیاسی طور پر، گھروں کے اندر، اسکول، دفاتر، کام جگہ ہر مقام پر برابر حیثیت کا مالک ہو، سیاست انسان کو انسان بناتی ہے، انہوں نے کہا کہ عورتوں کی تاریخ نہیں بنائی جاتی تاریخ عورت کو خود آٹھ کر لکھنی بنانی پڑتی ہے، سیمنار سے سماجی کارکن کلثوم. بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اور بلوچستان ہر طرح کی جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طورپر تیار ہیں۔
مگر وہ عورتوں پر جبر کے خلاف تیار نہیں عورتوں کا دن تو ہم شوق سے مناتے ہیں مگر عورتوں کے ساتھ سلوک تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہمارے معاشرے میں عورت پر تشدد کو گھریلو مسئلہ بناکر پیش کیا جاتا ہے وومن امپاورمنٹ میں عورت کے سلف ورتھ کو ابھارنا ہوگافیمنزم کہتا ہے جس نظر سے مرد کو دیکھا جائے اسی نظر سے عورت کو دیکھا جائے بلوچی زبان میں عورت سے متعلق بہت سی اصطلاحات کے لیے الفاظ موجود نہیں جس پر کام کی ضرورت ہے۔
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کے چیئرمین ظریف رند نے کہاکہ بلوچ عورت دوسروں کی الگ کیفیت کا شکار ہے، موجودہ دنیا میں عورت خودمختاری تک پہنچ گئی ہے جبکہ بلوچ عورت آج بھی اپنی شناخت کا شکار ہے، بلوچ عورت کے سیاسی و سماجی مقام کو بلند کرنے کے لیے اکیڈمک بحث کی ضرورت ہے، سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر تاج بلوچ نے کہا کہ عورتوں کی جھد کا جب بھی زکر کیا جائے گا تو بانک۔
کریمہ بلوچ کو بحرصورت یاد رکھا جائے گا وہ بی ایس او اور بلوچستان کی سیاست کے واحد خاتون تھیں جو سیاسی جدوجہد کے بعد بی ایس او کے چیئرپرسن بنیں اور قومی جدوجھد میں اپنی جان قربان کردی ان کی موت نے دنیا کو ہلادہا، انہوں نے کہا کہ اس سماج میں بچپن سے زہنون پر جینڈر کی تفریق بٹھائی جاتی ہے کہ بچی صرف گڑیا سے کھیل سکتی یے وہ سائیکل نہیں چلاسکتی کھلونا بندوق نہیں لے سکتی ہم نے کاموں کی درجہ بندی کی ہے۔
عورت کو کہا جاتا ہے کہ وہ ڈرائیونگ نہیں کرسکتی ان کا کام کوکنگ کرنا ہے لیکن دنیا کے بہتریں کک مرد ہیں، گھرون میں عورتوں کو فیصلہ سازی میں شریک نہیں کیا جاتا نا شادی یا دیگر امور میں ان کی رائے لی جاتی ہے۔ سیمینار میں تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست اور گرلز ماڈل اسکول تربت کے پرنسپل زمرد واحد نے بھی خطاب کیا جبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض شگراللہ یوسف نے سرانجام دیے۔