|

وقتِ اشاعت :   March 17 – 2021

سیاسی عدم برداشت کا بڑھتا رجحان سیاسی شخصیات کیلئے تذلیل کا باعث بن رہا ہے پہلے بیان بازی کے ذریعے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ان کی نجی زندگی اور خاندان کے افراد کو گھسیٹا جاتا رہا ہے جس میں بچوں سمیت خواتین کو بھی ہدف بنایا گیا اور اب بھی یہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے مگر کیا یہ عمل سیاسی اخلاقی اقدار کے پیمانے پر پورااترتا ہے قطعاََ نہیں بلکہ ذی شعور سیاستدان اس طرح کے عمل کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ اس طرح کے رویوں کوسیاسی عمل کیلئے شدید نقصاندہ سمجھتا ہے کیونکہ جو بھی اس طرح کے عمل کی حمایت کرے گا یقینا مکافات عمل کی صورت میں اسے سامنا کرناپڑے گا۔

اب سیاسی جماعتوں کی جانب سے مخالفین کیخلاف ایک نئے ٹرینڈ کا آغاز ہوچکا ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی سیاسی مخالف لیڈریا اہم رہنماء تقریب سمیت کسی جگہ شرکت کیلئے جاتا ہے تو اس پر انڈے، جوتے اور سیاہی پھینکی جاتی ہے کس طرح کا یہ شرمناک عمل ہے کہ جہاں پر دلیل اور منطق کے ساتھ سیاسی اختلاف رکھا جائے وہاں عدم برداشت کے ساتھ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں جس کا براہ راست اثر ہمارے سیاسی وسماجی زندگی پر پڑرہاہے۔ بہرحال یہ سلسلہ 2013ء سے شروع ہوا ہے۔

اس سے قبل بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان واضح اختلافات تھے جو نظریاتی طور پر اختلافات رکھ کر اپنا مدعا بیان کرتے تھے گوکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی سخت زبان کا استعمال اسی دوران دیکھنے کو ملا کہ سڑکوں پر گھسیٹنا، الٹا لٹکاناجیسے القابات سے ایک دوسرے کو نوازے گئے مگر چند عرصوں میں بیان بازی اورجملہ بازی سے بات آگے نکل کر براہ راست سیاسی قائدین پر جوتے، انڈوں اور سیاہی سے حملوں تک پہنچ گئی اور بعض سیاسی رہنماء اس عمل کو عوامی ردعمل قرار دے کر مزید اسے شے دیتے آئے اور نتیجہ کیا نکلا کہ اب سیاسی قائدین اور رہنماء اپنی عزت کی امان پاکر سیکیورٹی سخت کرتے ہیں۔

تاکہ ان کے ساتھ کسی جگہ اور مقام پر اس طرح کاواقعہ پیش نہ آئے جس سے ان کی عزت نفس مجروح ہو۔ بہرحال جیسا بوئے گا ویسا ہی کاٹے گا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل پر سیاہی اور انڈے سے حملہ کیا گیا اس حملے کے حوالے سے شہباز گل کا کہنا ہے کہ مجھ پر حملہ کرنے والوں کو معاف کرتا ہوں، کسی غریب اور نا سمجھ کو جیل میں نہیں دیکھنا چاہتا۔شہباز گل نے لکھا گزارش ہے کہ ان کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کیا جائے۔ گزشتہ روز عدالت میں لیگی قیادت کی ایما پرمجھ پرحملہ کیا گیا۔ اخلاق سے گرے لوگ دیہاڑی دار افراد کا استعمال کر رہے ہیں۔

معاون خصوصی شہباز گل نے جس طرح سے حملہ آوروں کے متعلق بات کی ہے تو یقینا اس سے قبل لیگی رہنماؤں پر اس طرح کے حملے ہوئے ہیں انہیں بھی اسی پیمانے پر پرکھنا چاہئے کہ وہ بھی دیہاڑی دار ، غریب، نا سمجھ افراد تھے اور انہیں بھی ن لیگ کے مخالف جماعت کی جانب سے نشانہ بنایاگیا ۔خیر یہ حوالہ جات یہاں دینے کی ضرورت اس لئے ہے کہ خدارا سیاسی ماحول کو پراگندہ کرنے کی بجائے سیاسی برداشت پیدا کی جائے اور مخالفت میں اس قدر آگے نکلنا نہیں چاہئے کہ دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ میز پر بات کرنی مشکل ہوجائے۔

چونکہ اختلافات سیاسی ہیں تو اسے سیاسی حوالے سے ہی لینا چاہئے بجائے یہ کہ عدم برداشت کے ذریعے ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کے ساتھ ساتھ عزت نفس پر حملہ کرکے سیاسی فاتح بننے کی کوشش کی جائے اور پھر وہی پلٹ کر پھر آپ ہی کو آکر لگے۔ یہ سوچنا سیاسی جماعتوں کے قائدین کاکام ہے کہ انہیں سیاسی پالیسیوں سے اختلافات کا جواب کیسے دینا ہے اگر یہی سیاسی رویہ جاری رہا تو ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ جیسے مکافات عمل کو ذہن نشین ضروررکھنا چاہئے۔