|

وقتِ اشاعت :   March 18 – 2021

وفاقی کابینہ نے 7.8 ارب روپے کے رمضان پیکج کی منظوری دے دی جس کے تحت یوٹیلیٹی اسٹورز پر 19 اشیاء پر سبسڈی دی جائے گی۔وزیراعظم پاکستان عمران خان کی زیرصدارت کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزراء فواد چوہدری اور حماد اظہر نے فیصلوں سے آگاہ کیا۔فواد چوہدری کاکہناتھا کہ غریب طبقے پر رمضان میں بوجھ نہیں پڑنا چاہیے اس لیے حکومت نے 7.8 ارب روپے کے رمضان پیکج کو منظور کر لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن اس سال کے آخر تک خسارے سے باہر آجائے گی۔

حماد اظہر نے کہاکہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی پر 40روپے فی کلو، تیل پر 20 روپے فی لیٹر، کھجوروں پر 20 روپے فی کلو اور چاول پر 10 روپے فی کلو تک سبسڈی دی جائے گی۔واضح رہے کہ رمضان المبارک سے قبل یوٹیلیٹی اسٹورز پر مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بڑا اضافہ گزشتہ ماہ فروری کے اواخرمیں کیاگیا جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا ہے نوٹیفکیشن کے مطابق گھی کی قیمت میں 48 روپے فی کلو اور کوکنگ آئل کی قیمت میں 29 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ۔ ایک لیٹر خوردنی تیل کے 5 پیکٹس کے پاوچ پر 44 روپے، ایک لیٹر کے 12 پیکٹس والے پاوچ پر62 روپے جبکہ گھی 203 روپے کلو سے بڑھ کر 251 روپے کلو کیا گیا ہے۔

خوردنی تیل 244 روپے سے بڑھ کر 273 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے جبکہ کولڈ ڈرنکس 5 روپے سے 10 روپے تک فی ٹن پیک مہنگا کیا گیا ہے۔ خشک اور بچوں کے دودھ 50 روپے سے 100 روپیہ فی پیک مہنگی کی گئی ہیں۔وفاقی وزراء کی جانب سے کابینہ کے فیصلوں کے مطابق رمضان پیکج کی منظوری ایک اچھا فیصلہ ہے مگر اس سے قبل جو اشیاء مہنگی کی گئی ہیں ان کی قیمتیں برقرار ہیں جبکہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی حسبِ روایت اشیاء خوردنی سمیت ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہے اور یوٹیلٹی اسٹورز سے سامان مکمل طور پر غائب ہوجاتے ہیں۔

اور جو اشیاء دستیاب ہوتی ہیں ان کی قیمتوں میں بھی کوئی خاص فرق نہیں دیکھنے کو ملتا ۔ اسی طرح عام مارکیٹوں کی صورتحال رہتی ہے کہ وہ من مانی قیمتوں پر اشیاء فروخت کرتی ہیں اور اسے کمائی کاسیزن قرار دے کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے ،سرکاری نرخنامہ پرکچھ بھی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ رمضان پیکج کے اعلانات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں مگر عوام کو اس سے کوئی ریلیف نہیں ملا،عوام کا شکوہ بھی یہی رہتا ہے کہ گرانفروشوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا بازاروں میں سرکاری نرخنامہ آویزاں نہیں کئے جاتے اور نہ ہی نرخناموں کا جائزہ لینے کیلئے صوبائی، ضلعی سطح پر کوئی ٹھوس حکمت عملی موجود ہوتی ہے کہ کم ازکم سرکاری نرخنامہ آویزاں کئے جائیں۔

جس سے عوام اسی قیمت پر اشیاء خوردنی خرید سکیں۔ دوسری جانب رمضان المبارک کے دوران حکومتی سطح پر سستے بازار لگائے جاتے ہیں جن میں اشیاء خوردنی کا وجود ہی نہیں ہوتا محض ٹینٹ اور کرسیاں لگائے جاتے ہیں اور عوام جب ان سستے بازاروں کا رخ کرتے ہیں تو انہیں شدید مایوسی کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ وفاقی کابینہ کے 7.8 ارب روپے کے رمضان پیکج سمیت یوٹیلیٹی اسٹورز پر 19 اشیاء پر سبسڈی پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے تاکہ جو رقم عوام کی ریلیف کیلئے رکھی جارہی ہے اس سے غریب عوام فائدہ اٹھاسکے۔

بجائے یہ کہ رقم نچلی سطح پر کرپشن کی نذر ہوجائے کیونکہ اس وقت عوام مہنگائی کی بد ترین لہر سے لڑرہی ہے اوراس کی حالت زار انتہائی خستہ ہوچکی ہے لہٰذا اس ماہ مبارک کے دوران حکومت تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے تاکہ عوام کو اس ماہ مبارک میں مشکلات کا سامنانہ کرناپڑے۔