کوئٹہ: چیئرمین پاک سرزمین پارٹی مصطفی کمال نے کہا ہے کہ بھارت بلوچستان کو یہاں پائی جانیوالی محرومیوں کی وجہ سے ٹارگٹ کررہاہے،حکمرانی کے لئے کسی اور سے نہیں صوبے کے غریب عوام سے ڈیل کی جائے،انہیں وسائل دئیے جائیں اور حق حکمرانی دیا جائے۔ صوبے میں رہنے والا ہر شخص اسی طرح سے پاکستانی ہے جیسے دیگر علاقوں کے لوگ پاکستانی ہیں۔
پورے بلوچستان اسمبلی ایک ہی رات میں وفاداری تبدیل کردیتی ہے، اور بعد میں ضمیر فروشی کا بوجھ ریاست پر ڈال دیاجاتاہے، ہمیں بھی کراچی میں 35سال تک ریاست کے سامنے کھڑا رکھاگیا، اس میں ہمیں کوئی سکھ نہیں ملا،کوئی ترقی نہیں ہوئی،، بلوچستان کے نوجوانوں کیساتھ زیادتی ہوئی ہے مگر اس کیلئے یہ راستہ نہیں جو انہوں نے چنا، ہم نے ذاتیات کیلئے ہتھیار نہیں اٹھائے۔
ہم نے مظلوم بن کر کوشش کی ہے آئیں،ہم سب امن کے لئے آواز اٹھائیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں پاک سرزمین پارٹی کے پانچویں یوم تاسیس کے موقع پر منعقدہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جلسہ سے پاک سرزمین پارٹی کے وائس چیئرمین عطاء اللہ کرد، صوبائی صدر شمس مینگل نے بھی خطاب کیا۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید مصطفی کمال نے کہا کہ بلوچستان میں ہر طرف مایوسی اور محرومیاں ہیں بلوچستان کے لوگ انسانی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے گھوم رہے ہیں۔
اٹھارہ لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں، کراچی کے ہسپتال آدھے سے زیادہ بلوچستان کے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں آدھے کا راستہ میں انتقال ہوجاتا ہے، کوئٹہ کراچی شاہراہ کے دورویہ نہ ہونے سے آئے روز حادثات میں صوبے کے لوگ مررہے ہیں، مائیں اپنے لاپتہ بچوں کو ڈھونڈتی پھر رہی ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
حکمرانوں کے آنکھوں میں بینائی نہیں کہ وہ بلوچستان کا درد دیکھ سکیں ہرسیاسی جماعت نے بلوچستان آکر وعدہ کئے مگر بلوچستان کے حالات درست ہونے کی بجائے ہر دن کے گزرنے کیساتھ خراب ہوتے جارہے ہیں پورے پاکستان میں نئے منصوبوں اور ترقی کی باتیں ہورہی ہیں، مگر بلوچستان میں ہر طرف مایوسی اور تکلیف دہ خبر یں آتی ہیں بلوچستان کے لوگوں نے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی بنائے وزرائاور وزیراعلیٰ منتخب کرائے لیکن ان عہدؤں پر بیٹھنے والے لوگوں نے جو وعدے کئے انہیں پورا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک رات میں بلوچستان اسمبلی کی وفاداریاں بک کر صبح ہونے سے پہلے تبدیل ہوجاتی ہیں۔
کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کیوں کہ صوبے کے لوگ غریب اور پسماندہ ہیں یہ لوگ ان سرداروں، وڈیروں اور سیاسی لوگوں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے صوبے کا غریب آدمی اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہے وہ کیسے ان بڑے سرداروں کامقابلہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ تو مجبور ہیں میرا سوال پاکستان چلانے والوں سے ہے۔
جنہوں نے بلوچستان کے سرداروں سے ہمیشہ الحاق کرکے ان سرداروں اور سیاستدانوں سے ڈیل کی اور پھر انہی سرداروں اور سیاستدانوں نے سارے عہدے لے کر انہیں انجوائے کیا اور جب ان سے عہدہ چنتا ہے تو صوبے کے معصوم نوجوانوں کو ریاست کے سامنے لاکر کھڑا کردیتے ہیں کہ ریاست ہمیں حقوق نہیں دے رہی۔
انہوں نے کہا کہ صوبے کے لوگوں نے اپنے حقوق کی رکھوالی کیلئے جنہیں اپنا نمائندہ چناوہ اپنی اپنی بدکاریوں اور ضمیر فروشی کا سارا بوجھ ریاست کے اوپر ڈال دیتے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریاست بلوچستان کے دو فیصد مراعات یافتہ سرداروں اور سیاستدانوں سے ڈیل کرنے کی بجائے بلوچستان کے غریب عوام، مزدور، پسے طبقات سے ڈیل کرکے ان کو حق حکمرانی اوروسائل پر اختیار دیتے ہوئے مقامی حکومتوں کو مضبوط بنائے ریاست یہ کام کرے بلوچستان کے لوگوں کے درمیان میں سے لیڈر ابھر کر جب ایوانوں میں آئیں گے تو یہ ایک رات میں اپنی وفاداریاں تبدیل نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے نوجوان کو حق حکمرانی دیئے بغیر بلوچستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا اور جب تک بلوچستان میں امن اور سکون نہیں ہوگا پاکستان ترقی نہیں کریگا۔ انہوں نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کو بھارت نے بلوچستان اور سندھ میں دہشتگردی کرانے اس لیے بھیجا کیوں کہ یہاں محرومیاں زیادہ ہیں اور ان محرومیوں کا فائدہ اٹھاکر بھارت اپنے ایجنٹ یہاں اْتارتا ہے اور جب تک ان محرومیوں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا دشمن ہم پر حملہ کرتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ناراض نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ بھارت اور دشمن ملک کی ایجنسیاں ہماری دوست نہیں ہیں اور یہ لوگ بلوچستان کے زیادہ دشمن ہیں ہمیں بھی کراچی میں کسی نے 35سالوں تک ریاست کیخلاف کھڑا کرکے نوجوانوں کو ہاتھوں میں ہتھیار دیئے اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ہزاروں نوجوان قبروں میں چلے گئے، چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوگئے۔
جو شہر روشنیوں کا شہر تھا آج اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے مگر ہم نے را کے تسلط کیخلاف کراچی سے جہاد کا آغاز اسلحہ سے نہیں کیا اسلحہ اٹھائے بغیر کراچی میں امن قائم کیا ہے،جہاں روزانہ درجنوں لوگ مارے جاتے تھے آج وہاں کوئی قتل نہیں ہورہا ہے نہ کوئی لاپتہ ہورہا ہے نہ کوئی اپنے گھر سے بھاگتا پھررہا ہے یہ ریاست اور ملک ہمارا ہے ہاں زیادتیاں ہوئی ہیں لوگوں کے گلے اور ناراضگیاں ہیں۔
مگر یہ درست نہیں کہ ان ناراضگیوں کے بدلے ہتھیار اٹھاکر ظلم کو ظلم سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے ہم نے مظلوم بن کر جدوجہد کا آغاز کیا اور آج سندھ اور کراچی سے را کے دہشتگردوں کی طاقت چھن گئی ہے اور جلد سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں حقوق ملیں گے بلوچستان کے نوجوان بھی اس راستہ کا انتخاب کرکے دشمن کی چالوں سے باہر نکل کر امن کیساتھ سامنے بیٹھ کر اپنی شکایات کا اظہار کریں۔
انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کو بلوچستان کے لوگوں اور ریاست کے درمیان مزاکرات کرانے چائیے تھے مگر چند دنوں پہلے کوئٹہ میں بڑے بڑے لیڈران نے آکر اسٹیج پر لاپتہ لوگوں کے گھروالوں کو جمع کرکے ان کے کندے پر بندوق رکھ کر ریاست کیخلاف شیم شیم کے نعرے لگائے آج ہم اس اسٹیج سے ان کیخلاف شیم شیم کے نعرہ لگاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی لاپتہ شخص کے اہلخانہ کو اسٹیج پر لے کر نہیں آئے نہ کسی کو اپنی نفرت کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے کراچی میں پانچ سو سے زائدافراد اپنے گھروں کو واپس لوٹے ہیں۔ہمیں دشمن کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا امن کیساتھ ریاست سے اپنے حقوق لینے ہیں اور آخری سانس تک حقوق کی جدوجہد کرنی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ریاست اور صوبے کے لوگوں کے درمیان ڈائیلاگ سے بلوچستان میں امن آئے گا ریاست لاپتہ افراد کو معاف کرکے اپنا دل بڑا کرکے ان کے سروں پر شفقت کا ہاتھ رھ کر ان کی محرومیوں کو دور کرے کوئی ہتھیار نہیں اٹھائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم دو لوگوں نے ظلم کی سیاح رات میں ظالم کیخلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور آج پانچ سالوں کے دوران ملک کے کونے کونے میں پاک سرزمین پارٹی کا پیغام پہنچ گیا ہے،آنے والا دور پی ایس پی کا ہوگا،بلوچستان کے لوگ سرداروں، لیڈروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے درمیان سے قیادت سامنے لائیں۔ انہوں نے کوئٹہ میں ہزارہ برداری کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کا قتل ہوتا ہے۔
امن پسند لوگ اپنی نعشوں کو رکھ کر احتجاج کرتے ہیں کہ حکمران آکر ان کی داد رسی کریں مگر مارے جانے والے پکڑے نہیں جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کراچی شاہراہ کو دورویہ کیا جائے روزانہ حادثات لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں، سوئی کے مقامی لوگ گیس سے محروم ہیں ان محرومیوں کاازالہ کرنا چائیے، انہوں نے کا کہ بلوچستان اور پاکستان پر حکمرانی کرنے والے اور بلوچستا ن کے نوجوانوں کی محرومیوں کا فائدہ اٹھاکر ان کی وفاداریاں فروخت کرنے والو ں سے کہتا ہوں کہ پاک سرزمین پارٹی آج پانچ سال کی ہوئی ہے۔
پانچ سال بعد بلوچستان سمیت ملک کے ہر ایوان میں جو نمائندہ ہوگا وہ پاک سرزمین پارٹی کا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جلسہ میں رکاوٹ ڈالنے والے حکمرانوں کو معاف کرتا ہوں کوئی گلہ نہیں ہے۔
اگر حق اور سچ کے راستے میں رکاوٹ نہیں آئے گی تو وہ حق اور سچ کا راستہ نہیں ہے، رکاوٹیں ڈالنے سے میرے ساتھیوں کو پتہ چل گیا ہے کہ ہمارا راستہ حق کا راستہ ہے اور اس پر تم بھی آجاؤ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے ظلم کی سیاہ رات ختم ہونے والی ہے اور حق انصاف اور غریبوں کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔