|

وقتِ اشاعت :   March 1 – 2015

کوئٹہ: بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی ترجمان نے فورسز کی بلوچ نسل کشی کی پالیسیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچوں کا اغوا اور قتل روز کا معمول بن چکا ہے ۔ اس کے علاوہ عام آبادیوں پر یلغار و بمباری سے تنگ آکر بلوچوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے ۔ جس کی تازہ مثالیں ضلع آواران میں گیشکور اور ضلع کیچ کے کئی علاقے ہیں ۔ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے فورسز روزانہ کی بنیاد پر آپریشنوں میں ہزاروں افراد کو اغوا کرکے حراسان کرنے کا حربہ آزما رہا ہے ۔ اس دوران کئی بلوچ فرزندوں کو اغوا کے بعد شہید کرکے مسخ شدہ لاش پھینکی جاتی ہیں یا سالوں تک زندانوں میں اذیت دیکر بلوچ قوم کو شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔آج آواران کے علاقے گیشکور سے فورسز کے ہاتھوں لاپتہ دو بلوچ فرزندوں کی مسخ شدہ لاشیں فورسز نے مقامی انتظامیہ کے حوالے کیے۔ مرکزی ترجمان نے کہا کہ26 فروری کو گیشکور شم مرہ آپریشن کے دوران فورسزکی جانب سے اغوا کیے جانے والے دو فرزندوں فراز بلوچ ولد بدل اوروشی بلوچ ولد شربت کی تشدد زدہ لاشوں کو لیویز کے حوالے کردیاہے ۔ گیشکور فورس کیمپ سے ڈی سی آواران کو آرمی افسران نے فون کے ذریعے اطلاع دی کہ گیشکور کیمپ آکر لاشیں وصول کریں ، جس پر لیویز عملے نے کیمپ جا کر دونوں لاشوں کو وصول کرکے لواحقین کو پہنچا دیا۔ اس بربریت کی گواہ ڈپٹی کمشنر آواران و آواران لیویز ہے لہٰذا انسانی حقوق کے اداروں و عالمی انصاف کے اداروں کا فرض بنتا ہے کہ ان سنگین انسانی جرائم کا نوٹس لیکر فورسز کو عالمی قوانین کی پامالی پر انصاف کے کٹہرے میں لائیں تاکہ بلوچ قوم چھٹکار احاصل کرکے امن و چین کی زندگی گزار سکے ۔ گزشتہ روز کراچی سے فیاض بلوچ کو اہل خانہ کے سامنے فورسز نے اغواکرکے دو دن شدید تشدد کے بعد انکی لاش پھینکی تھی ، اسی طرح آواران گیشکور سے اغوا کیے جانے والے فرزندوں کی اب تک تین لاشیں مل چکی ہیں۔واضح رہے کہ فروری کے مہینے میں گیشکور کے کئی علاقوں سے50 سے زائد بلوچ فرزندوں کو فورسز نے آپریشن کے دوران اغوا کیا ہے، جن میں سے کچھ روز قبل ڈاکٹر ثناء اللہ کی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی ۔جبکہ گیشکور ملٹری کیمپ کے گرد نواع کی تمام آبادی کو فورسزنے جبرا نقل مقانی پر مجبور کر دیا ہے اور علاقہ ویران ہے۔صوبائی حکومت بلوچ نسل کشی میں ایف سی کو پولیس کے اختیار کے ساتھ کھلی چھوٹ دے چکا ہے ۔ عالمی اداروں و انسانی حقوق کے تنظیموں کی بلوچ نسل کشی اور نام نہاد حکومت کے جرائم پر خاموشی ایک معمہ بن چکی ہے۔