|

وقتِ اشاعت :   March 22 – 2021

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ ملتوی کرنے کااعلان گزشتہ دنوں ہی کردیا تھا۔پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد جمعیت علمائے اسلام اور اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سربراہی اجلاس میں نوازشریف، آصف زرداری، ڈاکٹر جمالدین ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے اور اجلاس کا ایجنڈا 26 مارچ کے لانگ مارچ کے حوالے سے تھا۔

انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کے ساتھ استعفوں کو وابستہ کرنے کے حوالے سے 9 جماعتیں اس کے حق میں تھیں اور پیپلزپارٹی کو اس سوچ پر تحفظات تھے، پی پی نے وقت مانگا ہے کہ ہم پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی طرف رجوع کریں گے اور پھر پی ڈیم کو اپنے فیصلے سے آگاہ کریں گے۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ ہم نے پیپلزپارٹی کو موقع دیا ہے اور ہمیں ان کے فیصلے کا انتظار ہوگا لہٰذا 26 مارچ کا لانگ مارچ پیپلزپارٹی کے جواب تک ملتوی تصور کیا جائے۔

اس اعلان کے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمان پریس کانفرنس ادھورا چھوڑ کر چلے گئے۔ اس پر مریم نواز نے مولانا فضل الرحمان کو آواز دی لیکن وہ نہیں رکے۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے استعفوں کے فیصلے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ جب تک پیپلز پارٹی واپس آکر جواب نہیں دیتی قیاس آرائی نہیں کرسکتی۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم آپ کے سامنے اور عملاً بھی نظر آرہی ہے، حکومت ختم ہوگی۔خیال رہے کہ اپوزیشن اتحاد نے حکومت کے خلاف 26 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا۔

بہرحال پی ڈی ایم کے اندر موجود دراڑیں سامنے تو آگئی ہیں مگر ن لیگ کو بڑا دھچکا اس وقت لگا جب مریم نواز اور حمزہ شہباز کے درمیان اپنی ہی پارٹی اجلاس کے دوران تلخ کلامی ہوئی جس پر نواز شریف بھی نالاں ہوکر اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے اب قاصر ہیں کیونکہ اندرون خانہ اختلافات کی وجہ سے پی ڈی ایم لانگ مارچ نہیں کرے گی اور جہاں تک پیپلزپارٹی کے جواب کا انتظار ہے۔

تو آصف علی زرداری نے استعفے سمیت اہم فیصلے نواز شریف کی ملک آمد کے ساتھ جوڑدیئے ہیں اور یہ بات آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم اجلاس کے دوران دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا جس کے بعد سیاسی ماحول گرم ہو گیاہے اور اب بھی پیپلزپارٹی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حکومت مخالف بہت بڑے فیصلے میں پی ڈی ایم کے ساتھ چلے گی، مشکل دکھائی دیتا ہے کیونکہ سندھ حکومت کی قربانی پیپلزپارٹی نہیں دے گی ،پہلے سے ہی پیپلزپارٹی سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

جو کسی زمانے میں وفاق میں حکومت بنانے کے حوالے سے بڑی جماعت کی حیثیت رکھتی تھی اب ایک صوبے کی جماعت بن چکی ہے اور اسی سیاسی حکمت عملی کے ذریعے پیپلزپارٹی کی کوشش ہوگی کہ وہ پنجاب میں اپنی جڑیں دوبارہ مضبوط کرے یقینا اس کیلئے وہ سخت بیانیہ کو بھی ترک کرے گی جو اب تک پی ڈی ایم خاص کر مسلم لیگ ن اورمولانافضل الرحمان لے کر چل رہے تھے۔ اگر پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کے ساتھ آخر تک چلنا ہوتا تو وہ باتیں آصف علی زرداری نہ کرتے جس سے ن لیگ کو براہ راست نشانہ بنایا۔

بہرحال جواب مثبت آنے تک پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی اب یہ سیاسی حالات پر منحصر ہے کہ پیپلزپارٹی نئی حکمت عملی کے تحت کس طرح آگے بڑھے گی اور جو اہداف زرداری نے سوچ کررکھے ہیں انہیں حاصل کرنے میں کامیابی ملے گی وگرنہ پیپلزپارٹی بھی مکمل بیک فٹ پر چلی جائے گی اور اس طرح اپوزیشن اتحاد کاشیرازہ بکھرجائے گا۔