|

وقتِ اشاعت :   March 25 – 2021

کوئٹہ: بی این پی کے رکن ثناء بلوچ نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کے باہر کفن پوش زندہ لاشیں ہمیں جگانے کی کوشش کررہی ہیں جی پی اے اور سی اینڈ ڈبلیو کے ملازمین عرصہ دراز سے احتجاج پر ہیں بی ڈی اے کے ملازمین کو تنخواہیں تو ادا کردی گئی ہیں مگر محکمے نے انہیں فارغ کرنے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے انہوں نے کہا کہ ترقی کا عمل مشاورت سے ہوتا ہے۔

مگر اس پورے دورانیے میں اسمبلی میں کسی ایک مسئلے پر بھی مشاورت نہیں ہوئی ہے گھر مسمار کرکے سڑکیں وسیع کرنا پیسے کمانے کا حربہ ہے ساڑھے چھ سو روپے میں قالین کا ایک فٹ نہیں ملتا لیکن اس قیمت میں لوگوں سے ان کی زمینیں لی جارہی ہیں انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر کی بہتری کے لئے حکومت بیس سے تیس ارب روپے خرچ کررہی ہے۔

مگر اس میں ارکان اسمبلی کی کوئی مشاورت شامل نہیں اگر ہم سے مشورہ کیا جاتا تو بہتر منصوبے تجویز کرسکتے تھے۔انہوں نے کہا کہ ہم بڑے منصوبوں کو چھوڑیں تین سال سے اسمبلی کا مائیک ٹھیک نہیں ہورہا ہم نے اسمبلی کو ڈیجٹلائز کرنے کی تجویز دی اس پر بھی عمل نہیں ہوا بلوچستان اسمبلی کی حالت زار دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ موہن جودڑو بن گیا ہے۔

جس پر سپیکر نے کہا کہ اسمبلی کے ساؤنڈ سسٹم اور ری ویمپنگ کا ٹینڈر ہوچکا ہے منصوبے پر جلد عمل ہوگا۔ ثناء بلوچ نے کہا کہ حکومت کے پاس اگر وژن ہے تو ان مسائل پر بحث کرائے۔حکومت ہوش کے ناخن لے اور ان مسائل کے حل کے لئے اقدامات اٹھائے۔ ۔ثناء بلو چ نے بلوچستان میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی کردگاپ میں پیش آنے اولے ایک حادثے میں ایک ہی خاندان کے سات افراد شہید ہوئے۔

چمن دھماکے میں تین افراد، پنجگور میں ایک حادثے میں کئی لوگ زندہ جھلس کر مرگئے۔ ہم لاشوں کے علاوہ کچھ نہیں اٹھارہے ہم اسمبلی یہ سوچ کر آتے ہیں کہ یہاں قانون سازی کریں گے وفاق سے مسائل حل کرنے کا مطالبہ کریں گے۔

این ایف سی، سی سی آئی، پی پی ایل معاہدے، بے روزگاری سمیت دیگر مسائل اجاگر کریں گے مگر آئے روز کبھی جی پی ای اساتذہ، کبھی سی اینڈڈبلیو ملازمین کبھی بی ڈی اے کے ملازمین احتجاج کررہے ہوتے ہیں اور ہم ان کے لئے بات کرتے ہیں۔