|

وقتِ اشاعت :   March 25 – 2021

پشاور: پاکستان اور افغانستان کے درمیان نئے ٹرانزٹ معاہدے کی بعض شقوں پر عدم اتفاق کے باعث تجارتی راہداری کے لیے تین ماہ کی توسیع کردی گئی تھی۔ واضح رہے کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ مجریہ 2010کی مدت 11فروری 2021کو ختم ہوچکی ہے۔ پاک افغان جوائنٹ چیمبر کے سابق سینئر نائب صدر ضیاء الحق سرحدی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ معاہدے کے تحت افغانستان۔

بین الاقوامی تجارت کے لیے پاکستان کی بندرگاہیں اور زمینی راستے کے استعمال کے ساتھ افغانستان اپنا تجارتی سامان بھارت کو برآمد بھی کرسکتا ہے جبکہ پاکستان کو بھی وسط ایشیائی ممالک تک راہداری تجارت کی سہولت حاصل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ معاہدے کے تجدید کے لیے دونوں ممالک میں مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں لیکن اب تک کئی معاملات حل طلب اور 2010کے راہداری تجارت کے معاہدے پر نئے حالات کے تناظر میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔

تجارتی راہداری کا نیا معاہدہ طے نہ ہونے پر دونوں ممالک کی تجارتی برادری کو تشویش لاحق ہے۔ انہوں نے بتایاکہ افغانستان چاہتا ہے کہ پاکستان اسے واہگہ بارڈر کے راستے بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت اور افغانستان سے تجارتی سامان لے جانے والے ٹرکوں کو بھارت میں داخل ہونے کی اجازت دے جبکہ موجودہ معاہدے کے تحت افغان تجارتی سامان سے لدے ٹرک صرف واہگہ تک جاسکتے ہیں۔

جسکی وجہ سے انکے ٹرکوں کوخالی واپس لوٹنا پڑتا ہے۔اس سلسلے میں پاکستان کا اصولی مقف یہ ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان موجودتجارتی راہداری کا معاہدہ سہ فریقی نہیں بلکہ دوطرفہ ہے اور اس معاہدے میں بھارت شامل نہیں ہے۔ لہٰذا پاکستان نئی دہلی کے ساتھ کشیدگی اور تنا ؤکے شکار تعلقات کے پیش نظر واہگہ کے راستے افغانستان کو دو طرفہ تجارت کی سہولت فراہم نہیں کرسکتا ۔

کیونکہ بھارت کا افغانستان میں اثر ورسوخ بھی پاکستان کی مخالفت پر مبنی ہے۔پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ افغانستان کے راستے آزادانہ تجارت چاہتا ہے لیکن تاحال اس ضمن میں کوئی معاہدہ طے نہ ہوسکا ہے۔حکومتِ پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوارکرنا چاہتی ہے اور پاکستان افغانستان کو دیگر منڈیوں تک رسائی دینے کے ساتھ وسط ایشیائی ممالک تک رسائی چاہتا ہے۔

پاکستان نئے راہداری معاہدہ سے وسط ایشیائی ریاستوں تک تجارت کے لئے بغیر کسی رکاوٹ کے رسائی چاہتا ہے۔ ضیاء الحق سرحدی جو کہ فرنٹیئرکسٹم ایجنٹس ایسوسی ایشن خیبرپختونخواکے صدر اور آل پاکستان کسٹم ایجنٹس ایسوشن کے مرکزی وائس چیئرمین بھی ہیںنے بتایا کہ افغانستان مال بردار ٹرکوں کو واہگہ کے راستے بھارت میں داخلہ چاہتا ہے۔

ان دومعاملات سمیت دیگرسیاسی وجوہات کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان نئے معاہدے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ پاکستان کے راستے ہونے والی افغان تجارت کے حجم میں بھی 50فیصد سے زائد کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ماضی میں پاک افغان تجارت کا حجم 2.5ارب ڈالر تھا جواب گھٹ کر 1ارب ڈالر سے بھی کم ہوگیا ہے۔ ضیاء الحق سرحدی نے میڈیا کو ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ گزشتہ 10سال میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے 33ارب ڈالر مالیت کے سامان سے لدے 8لاکھ 32ہزار کنٹینرز پاکستان سے گزرے ہیں۔

یوں 10سال میں 30فیصد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پاکستان کے راستے ہوئیں باقی ماندہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایران، ازبکستان اور تاجکستان کے راستے کی گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا 10سالہ معاہدہ 28اکتوبر 2010کو کابل میں ہوا تھا جس پر عمل درآمد کا آغاز 12فروری 2011سے ہوا تھا۔افغان تاجر برادری کی خواہش کے مطابق کراچی بندرگاہ پر افغانستان کے تجارتی سامان کے کنٹینرز کی انسپیکشن کا عمل تیز کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر نئے تجارتی راہداری کے معاہدے میں اس معاملے کو حل کرلیاجائے تو پاکستان کے راستے افغانستان کی تجارت کے حجم میں اضافہ ممکن ہے اور کراچی سے افغانستان جانے والے سالانہ 75ہزارکنٹینرز کی ترسیل کا حجم بھی بڑھ سکتاہے اور باہمی تجارت کے حجم کو5ارب ڈالر تک توسیع دی جاسکتی ہے۔انہوں نے اس امر کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہاکہ اب افغانستان کے ساتھ تجارت میں پاکستان سرفہرست ملک نہیں رہا۔

اور بلحاظ تجارت ایران سرفہرست ملک بن گیاہے جبکہ پاکستان فہرست میں دوسرے نمبر پر آگیا اور حیرت انگیز طور پر افغانستان کے ساتھ تجارت میں بھارت نے تیسری پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ پاک افغانستان دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے 2019سے طورخم کی سرحدی گزرگاہ کو آمدورفت کے لیے24گھنٹے کھولی گئی لیکن اس کے باوجود دوطرفہ تجارت میں خاص پیشرفت نہیں ہوسکی۔