صبح کے 11 بجے ہیں، ایک تنگ گلی میں واقع ایک گھر کا لکڑی کا دروازہ کھلتا ہے، ایک 18,19 سال کا نوجوان سائیکل لے کر باہر نکلتا ہے اور اپنی ملازمت پر روانہ ہوجاتا ہے۔
یہ لیاری ٹاؤن کے شاہ عبدالطیف بھٹائی روڈ کا منظر ہے۔
نوجوان عبدالرحمان گھر سے دکان تک کا جو فاصلہ 15 سے20 منٹ میں طے کرتے تھے اب انہیں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔
سائیکلنگ ویسے تو صحت اور جیب دونوں کے لیے مفید ہے لیکن عبدالرحمان کسی اور وجہ سے سائیکل چلاتے ہیں، پچھلے دنوں وہ اسلحے کے زور پر موٹر سائیکل سے محروم ہوچکے ہیں۔
’دکان سے واپسی کے وقت گھر کے قریب ایک شخص نے مجھے ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا اور میرے رکتے ہی دوسرے نے پیٹ پر پسٹل رکھ دیا، انہوں نے موٹرسائیکل سے اترنے کے لیے کہا لیکن میں نے مزاحمت کی، جس پر انہوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور موٹرسائیکل لے کر چلے گئے۔‘
عبدالرحمان کراچی کے علاقے بغدادی کے تھانے میں ایف آئی آر درج کرانا چاہتے تھے لیکن پولیس نے صرف کچی رپورٹ درج کردی، اب وہ ہفتے میں ایک بار یہ معلوم کرنے جاتے ہیں کہ کیا کوئی پیش رفت ہوئی لیکن ہر بار انہیں مایوس واپس لوٹنا پڑتا ہے۔
عبدالرحمان نے قسطوں پر یہ موٹر سائیکل لی تھی جس کی ہر ماہ تین ہزار قسط ادا کرتے ہیں لیکن اب وہ شیر شاہ مارکیٹ کے قریب واقع گارمنٹس کی دکان پر کبھی سائیکل اور کبھی بس میں جاتے ہیں۔
بی بی سی اردو سروس اور گیلپ کے ایک مشترکہ سروے میں لیاری، انفرادی لحاظ سےسب سے خطرناک علاقے کے طور پر سامنے آیا ہے جہاں کی تقریباً نصف آبادی کبھی نہ کبھی لٹ چکی ہے۔ سروے میں شامل 43 فیصد افراد نے کہا کہ ان کے ساتھ ذاتی طور پر جرم کی واردات ہو چکی ہے۔
لیاری کی ہر گلی میں لٹنے یا چھننے کی کہانیاں موجود ہیں جو اکثر لوگ زبان پر لانے سے کتراتے ہیں۔
تاہم اسی علاقے کے محمد حسن خوش نصیب ہیں وہ موٹر سائیکل سے محروم ہونے سے بچ گئے۔
’میں ڈیوٹی پر جا رہا تھا کہ حاجی کیمپ کے قریب تین ڈاکوں سے سامنا ہوگیا۔ میں نے انہیں دیکھتے ہیں موٹر سائیکل کی چابی اٹھاکر پھینک دی، ڈاکوؤں نے چابی ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن انہیں نہیں ملی بعد میں موبائل فون چھین کر گلیوں میں غائب ہوگئے۔ میں گھبرا گیا کہ اب کیا کروں پھر ذہن میں آیا کہ یہاں سے نکلنے میں ہی بہتری ہے اور چابی ڈھونڈ کر واپس آگیا۔‘
مزدوروں کی بستی لیاری ماضی میں ترقی پسند اور جمہوریت پسند خیالات کے باعث سندھ اور بلوچستان کے سیاسی کارکنوں کا مرکز اور تربیت گاہ رہی ہے لیکن اب یہ جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہ بن چکی ہے۔ کبھی پولیس مقابلوں، تو کبھی گروہی تصادم میں ہلاکتوں کے واقعات ہفتے میں ایک بار پیش آ ہی جاتے ہیں۔
چاکیواڑہ چوک پر ایک پولیس موبائل نظر آئی جس پر گولیوں کے نشانات تھے جبکہ شیشہ بھی ٹوٹ چکا ہے، اہلکاروں کا کہنا تھا کہ انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ بکتربند نما موبائل بلٹ پروف ہے۔
لیاری میں سٹریٹ کرائم کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب عام سپاہی بھی جانتا ہے، ایک اہلکار جو دو بار یہاں مقابلوں میں زخمی ہوچکا ہے، اس کا کہنا تھا کہ 70 فیصد پرامن لوگ ہیں صرف 20 فیصد جرائم پیشہ ہیں، بقول ان کے لیاری میں جرائم کی وجہ زیادہ تر بیروزگاری ہے۔
’ ظاہر ہے اب کوئی بھوک تو برداشت نہیں کرتا، پھر نوجوان طبقہ نکل آتا ہے کبھی موبائل فون چھین لیا تو کبھی کسی سے نقدی۔ سو دوسو چار سو جتنے مل جائیں، چھین لیتے ہیں۔ گشت کے دوران اگر کوئی ٹکر جائے تو پکڑ لیتے ہیں ورنہ گلیوں میں بھاگ جاتے ہیں۔‘
جرائم پیشہ افراد اور پولیس کی آنکھ مچولی اور سیاسی رسہ کشی نے یہاں کی اصل شناخت، ثقافت اور روایت کے چہرے کو بدل دیا ہے۔ عالمی فٹبالروں کی بستی کے بچے اب میدانوں کے بجائے دکانوں میں ویڈیو گیمز کھیل کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔
ان کی زندگی کے میدان بھی اب سکڑ کر خستہ گلیوں تک محدود ہوگئے ہیں۔
کراچی میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری آپریشن کے بعد صورتحال میں کسی حد تک بہتری آئی ہے، لیاری میں بھی رینجرز کی مستقل چوکیاں قائم ہوچکی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ بےگناہ لوگوں کو حراست میں لینے کی شکایت بھی بڑھ گئی ہیں۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
لیاری کراچی کا خطرناک ترین علاقہ
وقتِ اشاعت : March 2 – 2015