|

وقتِ اشاعت :   March 30 – 2021

کوہاٹ: پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نائب صدر محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ پشتونوں کی جاری نسل کشی ترک کی جائے اردگرد کے جو حالات ہے وہ انتہائی خطرناک ہیں،ملک کو توڑنا نہیں چاہتے ہیں۔

لیکن غلام کی حیثیت سے رہنا کسی صورت قبول نہیں، افغانستان میں جاری جنگ کا خاتمہ ہر صورت ہوگا ہمسایہ ممالک مداخلت کا سلسلہ ختم کردیں،اس سرزمین پر قبضہ کرنے اور پشتون افغان عوام کو غلام بنانے کی پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا، پشتون افغان پر دہشتگرد ہونے کے غلط الزامات قابل مذمت اور قابل گرفت ہے پشتون پر امن اور محنت کش اور بہادر قوم ہے۔

پشتون رنگ، نسل،زبان، مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر کسی سے نفرت نہیں کرتے بلکہ انسانیت کو ترجیح دیتے ہیں،جانی خیل بنوں کے انسانیت سوز واقعہ پر اس قوم سے معافی مانگنے کی بجائے ان کے احتجاج پر مزید رکاوٹیں ڈالنا نفرتوں کو مزید جنم دینا ہے،ملوث عناصر کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے اور ہمارے بچوں کا لاپتہ کرنے، مارنے کا سلسلہ بند کیا جائے، قوموں کو ان کے وسائل پر حقوق واختیارات دینے ہوگے۔

نا انصافی سے نفرتیں جنم لیتی ہیں اور نفرت کسے کہتے ہیں یہ ہم بہتر سمجھتے ہیں،اموں سے لیکر اباسین تک سرزمین پشتون افغان عوام کی ہے جس پر وہ آباد ہے اور یہ سرزمین ہمارے اکابرین نے اپنی قربانیوں کے بدولت حاصل کی ہے نہ کہ کسی کے خیرات یا زکوۃ میں دی گئی ہے،خدا کی تمام نعمتوں کے عطاء کیئے جانے کے باوجود ہم مسافرانہ اور بدترین زندگی گزار رہے ہیں یہ ہماری قسمت نہیں ہے۔

آئین کی بالادستی،پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوگی،عوام کے ووٹ کا احترام ہوگا تب یہ ملک بہترین ہوگا، جن کے پاس بندوق ہو وہ نہ ہی جرگے میں بیٹھ سکتے ہیں نہ ہی انتخابات لڑسکتے ہیں،آئین میں ہر ادارے کی حدود کا تعین واضح ہے حدود کی تجاوز ملک کو مزید تباہی کی جانب دھکیل دیگا،ایمانداری یہ ہے کہ70کروڑ سے ضمیر وں کا سودا کیا جاتا ہے،باجوڑ سے لیکر خیبر تک ضرب عضب آپریشن کے نام پر ہزاروں لوگوں کا خون بہایا گیا۔

ہماری خاموشی کو کمزوری بے غیرتی نہ سمجھا جائے نہ ہی اس نسل کشی کے بعد ہم آپ کے گُن گُناسکتے ہیں،اپنی بد عملیوں کے باعث اس ملک کو توڑنے سے گریز کرے اور آئیں اس ملک میں قوموں کو حقوق دیکر ان کی حق ملکیت کو تسلیم کرکے اسے بہتر طریقے سے چلائیں،پشتونوں کو آپس کی رنجشوں کو ختم کرتے ہوئے متحد ومنظم ہوکر اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا ہوگا۔

پشتونوں کا متحدہ صوبہ (پشتونستان، افغانیہ یا پشتونخوا)کا قیام اب ہر صورت ضروری ہوچکا ہے،ہم اس ملک میں برابری وسیالی چاہتے ہیں،نسل کشی جاری رہی اوریہ ظلم وجبر ختم نہ ہوا تو پھر ایک اور تحریک اور ایک نیا جھنڈا ہوگا جسے کوئی روک نہیں سکے گا، جنگ نہیں چاہتے پر امن لوگ ہیں حالات نہ بدلے تو ایک بڑے جرگے کا انعقاد کرینگے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوہاٹ میں ہدایت اللہ آفریدی کے مہمان خانے میں منعقدہ اولسی جرگے۔

کلی محمد زئی سیٹھ حاجی سیف اللہ بنگش کے مہمان خانے اور پارٹی کے کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پارٹی کے سینئر ڈپٹی چیئرمین اور خیبر پشتونخوا کے صوبائی صدر مختیار خان یوسفزئی، مرکزی سیکرٹری خورشید کاکاجی،کوہاٹ کے ضلعی سیکرٹری ودیگر پارٹی رہنماء وکارکن بھی موجود تھے۔ محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پشتونوں کی نسل کشی ہورہی ہے ۔

ہمیں اندیشہ ہے کہ آس پاس کے حالات انتہائی خطرناک ہیں ہم نے یہ بات افغانستان میں لوئے جرگہ میں بھی کہی تھی کہ دنیا میں چرند پرند کے مارنے پر بھی حساب لیا جاتا ہے لیکن یہاں پشتون افغان عوام کی نسل کشی کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ اس پشتون وطن میں ایک طویل جنگ جو اب بھی جارہی ہے اس کیلئے 54اسلامی ملکوں نے بھی اپنا کردار ادا نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے وطن میں دو صورت میں خون جائز ہے ایک اُس وقت جب کوئی آپ کے کسی پیارے عزیز کو قتل کرکے اور اس پر معافی مانگنے کی بجائے اپنے جرم پر ڈٹا رہے ایسے شخص اور دوسرا جب کوئی خدانخواستہ آپ کی عزت پر ہاتھ ڈالے ان دو صورتوں میں ان کا قتل جائزہ ہیں لیکن اس کیلئے بھی اپنے حدود مقرر ہے اس کے علاوہ کوئی کسی کا خون نہیں بہا سکتا۔

لیکن آج دنیا کے جو غلط الزامات پشتون افغان پر لگائے جارہے ہیں کہ یہ قوم دہشتگرد ہے یہ انتہائی خطرناک ہے ایسا بالکل بھی نہیں ہیں بلکہ پشتون انسانیت کو ترجیح دیتے ہیں اور کسی سی بھی رنگ، زبان،نسل، مذہب، فرقہ، ثقافت کی بنیاد پر نفرت نہیں کرتے۔ ہم دنیا کو یہ کہتے ہیں ہم سب کو گزارا کرنا ہوگا ایک دوسرے کی عبادت گاہوں، مذہب، زبان ثقافت کا احترام کرتے ہوئے انسانیت پر چلنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ اور اس کے ماہرین یہ لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے قبل پشتون قوم امو سے لیکر اباسین تک کی سرزمین پر آباد تھے اور یہ ایک پر امن قوم ہے اس سرزمین پر آپ کو مسافری میں کھانا اور رات کیلئے قیام گاہ آسانی سے مل جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سرزمین ہمارے اکابرین ہمارے بڑوں نے ہزاروں کی تعداد میں قربانیاں دیکر ہمیں سونپی ہے۔

اور یہ ہم نے کسی سے خیرات یا زکوۃ میں حاصل نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پشتون ہے مسلمان ہے ہم تمام انسانوں کو حضرت آدم ؑ اور بی بی حوا انا کے بچے سمجھتے ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی سے نفرت نہیں کرتے بلکہ تمام انسانوں کو چاہے وہ جس مذہب یا مسلک کا ہو ایک دوسرے کے خدا، عبادت گاہوں، زبان، ثقافت کا احترام کرنا ہوگا اور کسی کو بُرا بلا نہیں کہنا ہوگا۔

دنیا میں ہمیں اپنی پہچان بنانی ہوگی پشتون افغان پر امن، ایماندار اور سچ بونے والے لوگ ہیں کسی کی امانت میں خیانت سے گریز کرنی ہوگی خاص کرکے تاجر برداری سے یہ کہتا ہوں کہ وہ دنیا میں اپنی پہچان ایک ایماندار تاجر کی حیثیت سے کرائیں تاکہ وہ آپ پر بھروسہ کریں اور ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے سے گریز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے ہم اسے توڑنا نہیں چاہتے۔

لیکن اگر یہ ٹوٹا تو اپنی بد عملیوں کی وجہ سے ٹوٹ جائیگا ہم اس ملک اور اس کی فوج کے دشمن نہیں لیکن ہم یہاں کسی کے غلام کی حیثیت سے نہیں رہنا چاہتے نہ ہم غلام تھے اور نہ آئندہ رہینگے۔ ہم اس ملک کے قیام سے پہلے بھی اپنی سرزمین پر آباد تھے اور آج بھی آباد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک قوموں کا ایک فیڈریشن ہے اور ہر قوم کی اپنی تاریخی سرزمین، زبان،ثقافت، وسائل موجود ہیں ان قوموں کے ان کے وسائل پر واک واختیار دیکر ان کی حق ملکیت کو تسلیم کرنا ہوگا ۔

جب ہم یہ بات کرتے ہیں تو لوگ ہم سے خفا ہوجاتے ہیں لیکن ہمیں اس ملک میں آئین نے باندھ کر رکھا ہے اور ہم سب کو آئین کے تحت چلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ طویل جنگوں اور تجربہ کی روشنی میں ماہرین واکابرین نے یہ فیصلہ کیا کہ جس کے ہاتھ میں بندوق ہوگی وہ جرگے میں نہیں بیٹھ سکتا اور نہ ہی انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے اسی طرح اس ملک کے آئین میں ہر ادارے کی حدود کا تعین واضح ہے۔

فوج سیاست میں مداخلت نہیں کریگی یہ آئین کہتا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم اس ملک کو چلانا چاہتے ہیں اگر کوئی اس ملک کو چلانا چاہتا ہے تو یہاں آئین کی بالاستی ہوگی،پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوگا، عوام نے جسے ووٹ دیا وہی عوامی نمائندہ ہوگا، عوام کے منتخب کردہ پارلیمنٹ میں داخلہ وخارجہ پالیسیوں کی تشکیل ہوگی، عوام کے حق رائے دہی کو تسلیم کرنا ہوگا، پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی اور پنجابی اقوام کی سرزمینوں پر خدا تعالیٰ نے جو نعمتیں انہیں عطاء کی ہے۔

ان پر ان کے بچوں کا حق ہوگا۔ ہم کسی سے خیرات نہیں مانگتے ہمیں اپنے حقوق کی آئینی ضمانت دی جائیں۔ قدرت کی نعمتوں سے مالامال سرزمین ہونے کے باوجود ہمارے بچے آج بھی عید جیسے موقع پر بھی اپنے ماؤں،بہنوں کی آنکھوں کے سامنے نہیں ہوتے اور مسافرانہ زندگیاں گزار رہے ہیں یہ ہماری قسمت نہیں بلکہ یہ حالات ہم مسلط کیئے گئے ہیں۔ ایمانداری اور محنت کرنے کے باوجود ہمیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہمارے لوگوں کو دھوکہ میں رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 40سالہ طویل جنگ کی کیا ضرورت تھی کہ ہماری نسل کشی کی گئی 54اسلامی ممالک بھی خاموش رہے کسی نے اس جنگ کے خاتمے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا اور اب حالات مزید خطرناک ہوچکے ہیں دنیا کے ممالک جو جنگ کے دوران آئیں وہ اس وطن کی تحقیق کرچکے ہیں اور یہاں کے سائل وسائل پر ان کی نظریں پڑ چکی ہیں۔

ایسی صورتحال میں ہمیں متحد ومنظم ہونا ہوگا اور ایک دوسرے کی عزتوں کو بچانا ہوگا اور آپس کی رنجشوں کو ختم کرنا ہوگا۔ آپس کی جنگوں میں اگر دیکھا جائے تو صرف ایک سال میں قبائل کے نام پر جنگوں میں کتنے پشتون مر چکے ہیں۔ ہزاروں لوگوں کو قتل کرکے آپ کہتے ہیں کہ ہمارے گُن گائیں ایسا نہ ہوگا نہ ہم اتنے بے غیرت ہیں ملک چلانا ہے تو انصاف کرنا ہوگا۔