کوئٹہ: پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نائب صدر محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ پشتون افغان ایک بہادر قوم ہے اور محب وطن،عوام دوست کی جدوجہد سے فرنگی سامراج کو جانا پڑا ،ملک میں کسی کی بالادستی قبول نہیں سب کو ملکی آئین کے ماتحت رہنا ہوگا،آئین ہی بالادست ، پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ، ون مین ون ووٹ کے ذریعے عوام کی منتخب پارلیمنٹ ہوگی اورداخلہ وخارجہ پالیسیوں کی تشکیل پارلیمنٹ سے ہوگی ۔
ایم آر ڈی تحریک میں دفعہ 144کی خلاف ورزی پر قتل جائزہ قرار دیا گیا لیکن آئین کو پائو ں تلے روندھنے والوں کاکوئی حساب نہیں لیا گیا ، کونسلر، ایم پی اے ، ایم این اے ، سنیٹر ، جج اور فوج حلف اٹھاتا ہے کہ سیاست میں مداخلت نہیں کرینگے لیکن آج تک کسی بھی آئین توڑنے والے کو سزا نہیں ملی، ملک کو چلانا ہے تو جاری مذاق بند کیا جائے ، قوموں کو بااختیار بناکر ان کے وسائل پر ان کی حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے۔
ایسا نہیں ہوسکتا کہ ضمیر کی خریدکرنیوالا اور فروخت ہونیولا وفادار اور نہ کرنیوالا غدارہوگا اصل غدار تو وہ ہیں جو ضمیروں کا فروخت کرتے ہیں ،ملکی آئین میں ہر شہری کو اجتماع کرنے ،سیاسی جماعت بنانے سیاست کرنے کا جمہوری حق حاصل ہے ، یہ ملک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اپنی بد عملیوں کے باعث تباہی کا شکار ہوچکی ہے ، ملک میں بدترین مہنگائی ،غربت اور بھوک وافلاس عام ہوچکی ہے۔
غیر جمہوری حکومت کیخلاف تحریک نہیں چلائی گئی اور تو ملک مزید بحرانوں میں مبتلا ہوجائیگا ، افغانستان میں ہمسایہ ممالک کی مداخلت کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے ،ہمیں دُکھ ہے کہ 57کے قریب اسلامی ممالک نے بھی اس جنگ میں صلح کرنے کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کیا ، پشتون افغان کو اپنی قوم کی عزت ننگ وناموس کا دفاع کرنا ہوگا اور خود پر لگنے والے غلط الزامات کو مسترد کرنا ہوگا، پشتون اس ملک میں برابری چاہتے ہیں۔
اور غلام کی حیثیت سے قطاً نہیں رہینگے ، متحد ومنظم ہوکر پشتونوں نے ہر ظالم وجابر کا ڈٹ کا مقابلہ کیا ہے یہ پشتون تاریخ ہے ، ناانصافی کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے اپنے حقوق پر حق ملکیت وخودمختاری دی جائے ، امو سے لیکر اباسین تک پشتون اپنی سرزمین پر آباد ہیں ہرقسم کے قدرتی نعمتوں کے باوجود ہمارے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے مجبوراً مسافرانہ زندگی گزار رہے ہیں ،دنیا میں چرند پرند کو بھی نہیں مارا جاتا کہ اس سے خوبصورتی ختم ہوگی۔
اور یہاں پشتون نسل کشی انتہا کو پہنچ چکی ہے ، پشتونخوامیپ سے لوگ خفا ہوتے ہیں کہ آپ قومی اتحاد واتفاق کی بات کیوں کرتے ہیں ہم پہلے بھی کرتے تھے اور آئندہ بھی کرتے رہینگے ، قومی مسائل سے نجات کیلئے جرگہ کا انعقاد ضروری ہے اور اس میں اہم فیصلے کرنے ہونگے ، حالیہ سینٹ انتخابات میں 70کروڑ سے ضمیرکی فروخت ہوئی اور اس طرح دیگر کئی 10کئی15کروڑ میں ضمیروں کا سودا جاری رہا اتنی رقم ہمارے اضلاع میں تقسیم کردی جاتی۔
تو 6مہینے تک کا راش غریب کو دیا جاسکتا تھا ، فوج او راس کے جاسوسی اداروں کو سیاست میں مداخلت کا سلسلہ ترک کرنا ہوگا ، ضمیروں کا سودا کرنیوالے اسلام ، پاکستان ، عوام دوست نہیں بلکہ وہ غدار ہیں ،ہم پشتون ہیں اور اپنی قوم ،زبان ، ثقافت ،سرزمین کا دفاع اور اپنے حقوق کیلئے ہمیشہ آواز بلند کرینگے اور اس کیلئے جدوجہد کرتے رہینگے۔ ان خیالات کا اظہار انہو ںنے کوہاٹ بار ایسوسی ایشن میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ کا مطالعہ نہ کرنیوالے لوگ اکثر اس بات پر خفا ہوجاتے ہیں کہ ہم ماضی کو کیوں بیان کرتے ہیں جب آپ ماضی بیان نہیں کرینگے تواپنے موجودہ حال پر کیسے بات کرینگے اور حال پر تبصرہ کیئے بغیر مستقبل کی پیشنگوئی نہیں کی جاسکتی ۔ تاریخ کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے قبل پشتون امو سے لیکر اباسین تک کی سرزمین پر آباد رہے ہیں ۔
اور اس بہادر قوم نے ہمیشہ اپنی تاریخ ، ثقافت ، سرزمین، زبان کا دفاع کیا ہے تو ہم پر آج اس ملک میں پابندی عائد کی جارہی ہے کہ آپ اپنی قوم ، زبان کی تاریخ نہ دوہرائیں حالانکہ قرآن مجید میں بھی قوم اور زبان کی اہمیت واضح ہے اور چار آسمانی کتابوں کا الگ الگ زبانوں میںنازل ہونا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کیلئے اسی کے زبان میں پیغمبر ؑ کو بھیجاتھا اور آج دنیا کی سائنس بھی یہ کہتی ہے کہ انسانی ذہن کی بہترین نشوونماء انسان کی اپنی مادری زبان سے کی جاسکتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ کو غلط انداز میں پیش کرنا کسی صورت درست نہیں کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں گاندھی جی اور یہاں اس ملک میں قائد اعظم محمد علی جناح نہ ہوتے تو آزادی کی تحریکیں کامیاب نہ ہوتی حالانکہ ان تحریکوں سے قبل ہی پشتون افغان عوام فرنگیوں سے نجات کیلئے وطن کے چپے چپے میں جنگ نہ لڑرہے تھے جن میں ہمارے اکابرین بھی شامل تھے اور اگر پشتون افغان عوام جنگ نہ لڑتے تو فرنگیوں سے نجات حاصل نہ ہوتی اور آج بھی غلام ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ملک ہے اور یہ رضاکارانہ فیڈریشن ہے یہاں کوئی کسی کا غلام نہیں اور نہ کوئی کسی کا آقا ہے یہاں کوئی بالادستی نہیں ہوگا ہر کسی کی اپنی زبان ، ثقافت اور سرزمین ہیں لیکن اس ملک میں آئین کو پہلے روز سے نہ ہی تسلیم کیا گیا اور نہ ہی اس پر عملدرآمد کیا گیا ہے آئین کہتا ہے کہ اس ملک میں رہنے والے اس کے باشندے ہیں ہمیںپشتون بلوچ سندھی سرائیکی اور پنجابی اقوام کو آئین نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر رکھا ہے ۔
پشتونخواملی عوامی پارٹی یہ کہتی ہے کہ اس ملک کی فوج اور اس کے جاسوسی ادارے آئین کو نہیں مانتے ہیں آئین میں آئین سے انکار کرنیوالوں کی سزا کا تعین کیا گیا ہے ، ضیاء الحق کے مارشلاء کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک میں دفعہ 144کی خلاف ورزی پر سیاسی کارکنوں عوام کا قتل عام جائز قرار دیا گیا لیکن آج تک اس ملک میں آئین کو پائو تلے روندھنے والوں کو سزا نہیں دی گئی ۔
حالانکہ آئین میں ہر ادارے کی حدود کا تعین کیا گیا ہے اس کے باوجود فوجی حلف لینے کے بعد بھی سیاست میں مداخلت کرتے ہیں اور آئین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کونسلر سے لیکر پھر رکن صوبائی ، قومی اسمبلی ، سنیٹر ، جج سب آئین کے تحت حلف اٹھاتے ہیں اور یہ اقرار کرتے ہیں کہ ہم اس آئین کاتحفظ اور دفاع کرینگے اور یہی حلف فوج بھی اٹھاتی ہے کہ ہم سیاست میں مداخلت نہیں کرینگے۔
اگر اس ملک کو چلانا چاہتے ہیں تو جاری تماشے اور مذاق بند کیئے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک تب جاکر ترقی کریگا جب یہاں آئین کی حکمرانی ہوگی ، پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوگا، ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ میں داخلہ وخارجہ پالیسیاں تشکیل ہونگی ، عوام کے حق رائے دہی کا احترام ہوگا تب یہ ملک بہترین طور پر چل سکے گا۔
لیکن دروغ گوہی اور دھوکے سے ملک نہیں چلایا جاسکتا ۔ اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن یہ تینوں یہاں نہیں ہے نہ ہی اسلام ، نہ ہی جمہوریت اور نہ ہی پاک لوگ ہیں ۔ یہاں خریدوفروخت کی منڈی لگانے والے خریدنے اورفروخت ہونیوالے وفادار اور نہ فروخت ہونیوالے نہ خریدنے والے غدار قرار دیئے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ آج یہ ملک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود انی بدعملیوں کے باعث بدترین بحرانوں میں مبتلا ہوچکا ہے۔
مہنگائی ،غربت ، بھوک وافلاس عام ہوچکی ہے اور غریب لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔بیروزگاری ، مہنگائی اتنی ہے کہ لوگ بازار میں ہر نعمت ہونے کے باوجود انہیں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اس مہنگائی اور غیر جمہوری حکومت کے خلاف اگر تحریک نہ چلائی گئی تو یہاں افراتفری کا عالم ہوگا اور پھر کچھ باقی نہیں رہیگا۔ انہوں نے کہا افغانستان ہماری مادر وطن ہے روسی فوج کے جانے کے بعد اب تک اس جنگ کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیںچالیس سال سے مسلسل جنگ جاری ہے۔
او ر ہمارے عوام کا خون ناحق بہایا جارہا ہے ۔ اس جنگ کے صلح کیلئے 57کے قریب اسلامی ممالک جن کے پاس اپنی افواج ، مسلح ہتھیار ، جنگی طیارے سب کچھ موجود ہیں انہوں نے جنگ بندی کیلئے کوئی کردارادا نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں حیوانات ، چرند وپرند کو بھی اب نہیں مارا جاتا کہ اس سے خوبصورتی ختم ہوگی لیکن یہاں ہمارے عوام کی نسل کشی جاری ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ کے دوران دنیا کے مختلف ممالک آئیں ہیں۔
اور انہوں نے ہماری سرزمین کامطالعہ کیا ہے اور ان کی بُری نظریں ہمارے وسائل پر لگ چکی ہیں اب یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اپنی سرزمین کا دفاع کیسے کرتے ہیں۔ جب ہم متحد ومنظم تھے ہم نے ہر ظالم وجابر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی قوم کی عزت،ننگ وناموس کا دفاع ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ہمارے وطن میں خدا نے ہر نعمت سے ہمیں نوازا ہے۔
لیکن اس کے باوجود ہمارے بچے ملک سے باہر مجبوراً مسافرانہ زندگی بسر کررہے ہیں ۔ آج ہم پر اس ملک میں سود خور ، قاتل ، منشیات فروش کے الزامات لگائے جارہے ہیں اگر ایسا ہے تو پھرپشتون ایف سی کی صورت میں ہر سفارت خانہ ،کونسل گری پر چوکیدار کیوں تعینات کیئے ہیں ، اپنے بچوں کیلئے با اعتماد ڈرائیور اور چوکیدار کیوں پشتون رکھے ہیں۔
ایسی باتیں پشتون قوم کیلئے انتہائی نامناسب اور سخت قابل مذمت ہے۔ پاکستان ہمارا بھی ملک ہے لیکن اس ملک میں ہر قوم کی اپنی تاریخ ہے اگر اس ملک کو رکھنا چاہتے ہیں تو عوام کو ان کے وسائل پر واک واختیار دئیے جائیں۔
اور پشتون اس ملک میں سیالی اور برابری چاہتی ہے اپنے وسائل پر حق ملکیت چاہتی ہے ایسا نہیں ہوگا کہ ملک کے کسی قوم کے وسائل پر کسی اور قوم کا جبری قبضہ ہوگا۔