وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان موجودہ حالات میں بھارت کے ساتھ کسی قسم کی تجارت نہیں کرے گا۔وزیراعظم کی زیرصدارت بھارت کے ساتھ تجارتی روابط سے متعلق مشاورتی اجلاس ہوا جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔اجلاس میں وزارت خارجہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ تجارت سے متعلق تجاویز پر بریفنگ دی گئی۔اطلاعات کے مطابق بھارت سے تجارت سے متعلق ای سی سی کی سفارشات کو وزیراعظم عمران خان نے مسترد کر دیا، وزیراعظم نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور کابینہ کے دیگر ارکان کی مشاورت کے بعد ای سی سی کی سفارشات کو مسترد کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے یہ ہدایت کی کہ پاکستان موجودہ حالات میں بھارت سے کسی قسم کی تجارت نہیں کرے گا۔ اجلاس میں بھارت کے ساتھ تجارت بحال نہ کرنے اور مقبوضہ کشمیر کی آئینی صورتحال بحال ہونے تک بھارت سے تجارت نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا اصولی مؤقف ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر بھارت کے ساتھ تجارت نہیں ہو گی اس سے غلط تاثر جائے گا کہ ہم کشمیر کو نظرانداز کرکے بھارت سے تجارت شروع کردیں، کشمیر کو حق خودارادیت دیئے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات نارمل نہیں ہو سکتے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے سازگار ماحول ضروری ہے، بھارت 5 اگست 2019کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات پر نظرثانی کرے۔بہرحال اس سے قبل جب بھارت کے ساتھ تجارت کے حوالے سے خبریں سامنے آئیں تو حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرناپڑا اور وزیراعظم عمران خان کے ماضی کے بیانات کو ایک بار پھر دہرایاگیا کہ وزیراعظم عمران خان کا جو مؤقف بھارت اور وزیراعظم نریندر مودی کے متعلق تھا کیا دوبارہ اس میں یوٹرن لے لیا گیا ہے۔کشمیر مسئلے کو پس پشت ڈال کر اب تجارت کے ذریعے دوستانہ تعلقات بحال کئے جارہے ہیں۔
اور جووعدے کشمیری عوام سے موجودہ حکومت نے کئے تھے ان کی امیدوں کاگلاگھونٹاجارہا ہے جب ماضی کی حکومتیں بھارت کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کررہے تھے تو انہیں غدار کے القابات سے نوازاجارہا تھا اور حکومت عالمی سطح پر بھارت کو سفاک انسان کش ریاست قرار دے رہی تھی تو اب کیامجبوری آن پڑی ہے کہ بھارت کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے تعلقات کو ٹریک پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک کے اندر ایک دوسرا طبقہ ایسا بھی ہے جو بھارت کے ساتھ تجارت کو سراہتے ہوئے یہ مؤقف بیان کررہا ہے کہ کشمیر مسئلہ پر پاکستان اپنا مؤقف اسی طرح برقرار رکھے مگر تجارتی تعلقات بحال کرنے سے معاشی صورتحال میں بہتری آئے گی۔
جو کہ دونوں ممالک کی عوام کے مفاد میں ہے۔ اب یہ سوچنا ضروری ہے کہ دو آراء جو پائے جاتے ہیں ان میں کس کی دلیل میں زیادہ وزن ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،اگر تجارتی تعلقات کو بحال نہ کیاجائے تواس سے کیانفع ونقصان ہوسکتاہے۔دونوں حلقوں کی رائے کسی ایک جگہ آکر متفق ہوجاتی ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بحال ہونے سے خطے میں جنگی ماحول کا خاتمہ ہوگا مگر کشمیر کا مسئلہ اس میں سب سے اہم ہے جس کی وجہ سے حکومت کو تنقید کا سامناکرناپڑرہا ہے۔ بہرحال کشمیر کا مسئلہ کئی برسوں سے چلتا آرہا ہے۔
اور آج تک اقوام متحدہ کے فورم سے بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا اور تب بھی دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری رہا ہے مگر جب سے کشمیر کی آزاد حیثیت کو ختم کیا گیا ہے اس وجہ سے حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہوکر کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرپارہی۔اگر 5اگست 2019ء کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی آزاد حیثیت کے متعلق سخت اقدام نہ اٹھایاجاتا تو شاید آج بھارت کے ساتھ تعلقات پرحکومت کو زیادہ تنقیدکا سامنانہ کرناپڑتا۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھارت کے ساتھ تجارت نہ کرنے کافیصلہ بھی اسی دباؤ کی ایک بڑی وجہ ہے۔
مگر زیادہ عرصہ بھارت کے ساتھ تعلقات کوکشیدہ بھی تو نہیں رکھاجاسکتا لہٰذا حکومت مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے بھارت کے ساتھ اولین ترجیح پر بات کرے تاکہ مستقبل کے جنگی خطرات سے نکلتے ہوئے پُرامن ماحول کی جانب بڑھاجاسکے۔