|

وقتِ اشاعت :   April 6 – 2021

خضدار: جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنماء و رکن صوبائی اسمبلی حاجی زابد ریکی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں نہ حکومت ہے اور نہ ہی حکومتی پالیساں نظر آ رہی ہے،اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین کی حلقوں میں بے جا مداخلت ہو رہی ہے،صوبے کے وسائل کو غیر منتخب لوگوں کے زریعے ضائع کیا جا رہا ہے،ڈیزل و پیٹرول کی بندش کی وجہ سے باڈر ایرایا کے لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔

سی پیک کی ترقی پنجاب سمیت دوسروں صوبوں کے لئے ہیں بلوچستان کے لوگ اس ترقی سے محروم ہیں،ملازمین کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے انہیں انتقامی کاروائیوں کا شکار بنانا قابل مذمت عمل ہے ملازمین خود کو تنہاء نہ سمجھیں نہ صرف قوم بلکہ پوری اپوزیشن ان کے ساتھ ہے۔موٹروے بنانے والے بلوچستان کے حالت پر رحم کرکے آرسی ڈی شاہراہ کو ڈبل کردیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے خضدار پریس کلب کے پروگرام حال احوال میں بحیثیت مہمان اظہار خیال کرتے ہوئے کیا اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے صوبائی نائب صدر مولانا محمد صدیق مینگل اور ضلعی جنرل سیکرٹری مولانا عنایت اللہ رودینی سمیت دیگر رہنماء بھی موجود تھے جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی حاجی زابد ریکی نے مختلف سولاات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں منتخب حکومت نہیں بلکہ سلیکٹیڈ حکومت ہے۔

انہیں عوامی مسائل سے کوئی غرض نہیں ترقی کے دعوے صرف سوشل میڈیا میں نظر آتی ہے یا پھر فائلوں میں بند ہیں زمین پر کوئی ترقی نظر نہیں آ رہی ہے صوبائی حکومت انتقامی کاروائیوں میں اتنے آگے نکل چکی ہے کہ وہ نہ صرف اپوزیشن کے حلقوں میں بے جا مداخلت کر رہی ہے بلکہ ساتھ ہی صوبے کے عوامی فنڈز کو غیر منتخب لوگوں کے زریعے ضائع کر رہی ہے۔

جس سے عوام کا نقصان اور غیر منتخب لوگوں کا فائدہ ہو رہا ہے ایک سوال کے جواب میں رکن صوبائی اسمبلی کا کہنا تھا کہ سی پیک اور سی پیک کے زریعے بلوچستان میں اربوں روپے کے منصوبے کاغذی باتیں ہیں سی پیک کے حوالے سے بلوچستان میں کوئی ترقی نہیں ہو رہی ہے ہاں یہ بات درست ہے کہ نام بلوچستان کا استعمال ہو رہا ہے سی پیک کے وسائل پنجاب،کے پی کے اور سندھ پر خرچ ہو رہے ہیں۔

بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد بے روزگار نوجوانوں کے روزگار کا انحصار ایرانی پیٹرول و ڈیزل پر ہے ایرانی ڈیزل اور پیٹرول کی کاروبار پر پابندی لگانے سے ہزاروں نوجوان بے روزگار ہو گئے ہیں۔

اگر حکومت ڈیزل اور پیٹرول کے کاروبار پر پابندی لگانی ہے تو پہلے ان نوجوانوں کو روزگار فراہم کریں وگرنہ ان کو بے روزگار کرنا سنگین غلطی ہو گی جس سے نہ صرف حکومت ریاست بلکہ لوگوں کو بھی پریشانی و مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔