کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس کامران خان ملاخیل اور جسٹس روزی خان بڑیچ پر مشتمل بنچ نے بلوچستان بار کونسل کی جانب سے حکومت بلوچستان بذریعہ چیف سیکرٹری و دیگر کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی درخواست میں انسکمب روڈ کی توسیع، بلند و بالا عمارات کی تعمیر، پرائیوٹ ہسپتال، شہر میں ٹریفک کے مسائل سمیت دیگر ایشوز کے حل کے لئے حکومت بلوچستان کو فریق بنایا گیا ہے۔
عدالتی کاروائی کے آغاز پر سولجر ویلفیئر آرگنائزیشن کوئٹہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ انکا کلائنٹ اس پٹیشن میں فریق نہیں لیکن وہ پھر بھی عدالت کے حکم پر آرگنائزیشن کی جانب سے رپورٹ جمع کرائینگے۔ لیکن مدعی وکلاء کیجانب سے نقطہ اعتراض میں بتایا گیا کہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ نے جو رپورٹ عدالت میں جمع کرائی ہے اسکے مطابق بلوچستان بلڈنگ کوڈ 1987کے اطلاق کنٹونمنٹ ایریا پر بھی ہوتا ہے۔
اور کنٹونمنٹ اپریا میں جوعمارت تعمیر کی گئی ہے وہ سولجر ویلفئیر آرگنایزیشن کوئٹہ ہیڈ کوارٹر زسدرن کمانڈ کی زیر نگرانی تعمیر ہوئی ہیں۔ لہذا مدعی وکلاء کی جانب سے کہا گیا کہ چونکہ کنٹونمنٹ بورڈ نے یہ ذمہ داری اس پر عائد کرنے سے ہٹانے کی اجازت چاہی ہے۔ اس لئے ایس ڈبلیو او کو فریق بنایا جائے جس پر عدالت نے مدعی وکلاء کو مذکورہ آرگنائزیشن کا نام مقدمہ میں جو ابدہی کے لئے شامل کرنے کی اجازت دے دی۔
معزز بنچ کے روبرو چیف سیکرٹری بلوچستان، وزیر اعلیٰ بلوچستان کے پرنسپل سیکرٹری لوکل گورنمنٹ، محکمہ صحت کے خصوصی سیکرٹری اے آئی جی پولیس لیگل سیکرٹری ٹرانسپورٹ ڈی سی کوئٹہ اور ایڈمسٹریٹرمیٹرو پولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کی جانب سے گزشتہ عدالتی احکامات کی تعمیل میں رپورٹس پیش کی گئی۔ معزز بنچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کمشنر کوئٹۃ ڈویژن / پراجکٹ ڈائر یکٹر کوئٹہ ڈویلپمنٹ پیکچ کی جانب سے گزشتہ پیشی پر اٹھائے گئے۔
عدالتی سوالات کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی جو کہ اپنی جامصیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے حوالے سے شاندار اور قابل تعریف ہے۔ رپورٹ کے مطابق لینڈ ایکوزشن ایکٹ 1894کے سیکشن II کے تحت ڈپٹی کمشنر /کلیکٹر کوئٹۃ سرکی روڈ کی گوالمنڈی سے سبزل روڈ تک توسیع کے ضمن میں ایوارڈ کا اعلان پہلے ہی کر چکی ہیں۔ جبکہ انکی جانب سے مذکورہ ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت پرنس روڈ کی توسیع و ترقی کے لئے نوٹس بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
مجوزہ ٹریفک انجنرنگ بیورو اور ٹریفک منیجمنٹ کے مسائل کے حوالے سے ایس ایس پی ٹریفک کوئٹہ اور اے آئی جی پولیس نے معزز عدالت کو بتایا کہ بیورو 2021 کے قیام سے متعلقہ سمری وزیر اعلیٰ بلوچستان منظور کر چکے ہیں اور اسکا مسودہ بل جلد ہی جانچ کے لئے سیکرٹری لاکو بھجوا دیا جائیگا۔ کمشنر کوئٹہ کیجانب سے جمع کی گئی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ لوکل بس اڈا کی موجودہ مقامات سے منتقلی لوکل بس ایسوسی ایشن، پولیس آر ٹی اے حکام اور ضلعی انتظامیہ کی مشاورت سے کی گئی ہے۔
اور کسی بھی لوکل بس کوئٹہ شہر میں کسی بھی مقام پر پارکنگ کی اجازت نہیں البتہ انہیں مناسب سٹارٹنگ پوائنٹس الاٹ کر دئے گئے ہیں جنکی تفصیل رپورٹ میں درج ہے کوئٹہ شہر میں گرین بس پا ٹلٹ پراجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے اور اسکے لئے آر ٹی اے نے دو روٹس کا انتخاب کیا ہے۔ ابتدائی طور پر 8بسیں اس پراجیکٹ کے تحت چلائی جائینگی جنکی خریداری کا عمل جاری ہے۔
اسی طرح رکشو ں کے بے تحاشارش کو روکنے کے لئے سٹی شٹل سروس کی تجویز ہے جس کے لئے کوئٹہ شہر کو 4تا 6 زونز میں تقسیم کیا جائیگا۔ اور ہر زون کے لئے مخصورنگ کے رکشوں کی ہی اجازت ہوگی کمشنر کوئٹہ ڈویژن نے عدالت عالیہ کو مزید بتایا کہ اٹھارہ دن کے اندر اندر تین منزلہ سرکلر روڈ پارکنگ پلازہ کام شروع کر دے گا۔ مزید براں ان پراجیکٹس کے علاوہ ایک بڑا پراجیکٹ بھی پراجیکٹ منیجمنٹ یونٹ کی جانب سے تجویز کیا گیا ہے۔
جس کے تحت جائنٹ روڈ ایکسپریس وے کے ذریعے جائنٹ روڈ کو ائر پورٹ روڈ اور نواں کلی سے جوڑ دیا جائیگا۔ جس کی پاکستان ریلویز، کنٹونمنٹ بورڈ اور سٹیشن ہیڈ کوارٹر سے NOC کے لئے کاروائی کا اغاز کر دیا گیا ہے۔ معزز عدالت نے بحث کے بعد مذکورہ بالا تینوں اداروں کو جائنٹ روڈ ایکسپریس وے کے لئے NOC جاری کرنے کا حکم دیا کیونکہ ریلوے کے لائن کے دونوں اطراف میں روڈ کی تعمیر کے لئے تقریبا 90تا 110فٹ جگہ دستیاب ہے۔
جس سے ریلوے آپریشنز متاثر نہیں ہونگے۔ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے اپنی بیش رفت رپورٹ میں عدالتی احکامات کی تعمیل میں اٹھائے گئے دیگر اقدامات بارے بھی معزز عدالت کو بتایا۔ معزز عدالت نے دوران سماعت بلند و بالا اور بلڈنگ کوڈ کے خلاف تعمیرات اور پہلے سے تعمیر شدہ عمارات کو باقاعدہ بنانے کیلئے نئی بلڈنگ کوڈ کی منظوری میں تاخیر اور گذشہ کاروائی کے احکامات کا بھی جائزہ لیا۔
اس موقع پر عدالت میں موجود سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اور انتظامی آفیسر نے بتایا کہ نئی بلڈنگ کوڈ کا مسودہ محکمہ قانون کو جانچ کے لئے بھجوا دیا گیا ہے۔ معزز عدالت کو بتایا گیا کہ پرائیوٹ ہاسٹل ریگولیٹری اتھارٹی کے ضمن میں حکومت بلوچستان نے دو مارچ 2021کو ڈی جی ہیلتھ سرولز کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی ہے۔ معزز عدالت نے اس حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ پٹیشن 28/8/2020 کو دائر کی گئی اور پرائیوٹ ہاسپٹل ریگولیٹری اتھارٹی کے حوالے سے پہلا حکم 22/9/2020 کو دیا گیا لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ مذکورہ ریگولیٹری اتھارٹی کا ایکٹ 2006میں منظور کیا گیا۔
لیکن نہ یہ ایکٹ پوری طرح نافذ ہوا اور نہ ہی جامع اصول فریم کئے گئے۔ سابقہ سیکرٹری صحت دوستین جمالدینی اور سابقہ ڈی جی صحت ڈاکٹر شاکر بلوچ عدالت میں پیش ہوئے تھے اور انکی یقین دہانی پر نئے رولز بنانے کے لئے انہیں وقت دیا گیا لیکن انکی درخواست پر فراہم کئے گئے موقع سے انہوں نے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب نئے تعینات ڈی جی صحت ڈاکٹر علی ناصر بگٹی نے ایک بار پھر مطلوبہ کام کے لئے مختصر وقت مانگا ہے۔
لہذا انھیں عدالت نے اس حوالے سے پھر موقع فراہم کیا ہے معزز عدالت نے سیکرٹری صحت حکومت بلوچستان اور ڈی جی صحت کو سختی سے حکم دے کہ وہ پرائیوٹ ہسپتالوں کی ریگولیشن کے لئے نئے قانون بنا کرمیکنزم تشکیل دیں، عدالت نے توقع ظاہر کی کہ رولز کی تیاری میں ہسپتال، پولی کلینک اور ڈے کئیر سینٹر کے فرق کو بین الاقوامی طے شدہ تعریفوں کی روشنی میں مد نظر رکھا جائیگا۔
معزز عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ تمام نجی ہسپتال اس بات کے پابند رہیں گے کہ وہ میڈیکل ایمرجنسی چاہئے وہ کسی بھی نوعیت کی ہو جیسا کہ سیول یا کریمنل اس حوالے سے کیس کی نوعیت کو بہانہ بنا کر مریض کو لینے سے انکار نہیں کرینگے۔ تمام نجی ہسپتال اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنے ہسپتالوں میں میڈیکل ایمر جنسی /ٹراما سینٹر قائم کرینگے اور اسکی تما م تر لاگت نجی ہسپتال کا مالک برداشت کریگا ۔
جبکہ محکمہ صحت اس بات کو یقینی بنائے گا کہ وہ اس نئے قائم کردہ میڈیکل ایمرجنسی / ٹراما سینٹر میں پے رول پر میڈیکل آفیسر تعینات کریگا۔ معزز عدالت نے نجی ہسپتالوں کے مالکان کو بھی حکم دیا کہ وہ ان تمام ڈاکٹروں کے نام اور رابطہ نمبر ڈسپلے کریں جو انکے متعلقہ ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں۔ اور کسی بھی مریض کو طبی سہولت کی فراہمی کے لئے انکار نہیں کیا جائیگا۔
معزز عدالت نے امید ظاہر کی کہ اس حکمنانہ کے ایک ماہ کے اندر اندر ضروری اقدامات لے لئے جائینگے۔ معزز بنچ کے روبرو ایڈ منیسٹریٹر ایم سی کیو نے بھی روپورٹ پیش کی جسمیں بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی، تجاوزات، شورومز اور ڈیری فارم کی شہر سے باہر منتقلی کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات بارے بتایا گیا۔ ڈویژنل سپر نٹنڈنٹ پاکستان ریلویز نے بھی عدالت میں سریاب پھاٹک پر کلورٹ بریج کی تعمیر کے حوالے سے رپورٹ پیش کی۔
معزز عدالت نے ڈویژنل سپر نٹنڈنٹ کو اس حوالے سے ٹنڈرنگ پرویسس اور قانونی کاروائی مکمل کر کے کام کے فوری آغاز کی ہدایت کی جبکہ ڈویژنل سپر نٹنڈنٹ کی جانب سے انسکمب روڈ کی توسیع کے لئیمشروط این او سی کے اجرا کیلئے پراجیکٹ ڈائریکٹر کے حق میں لکھے گئے مراسلے کی کاپی بھی پیش کی گئی۔ عدالت نے اس امر پر افسوس کا اظہار بھی کیا کہ گزشتہ سماعت پر حکم دیا گیا تھا کہ چیف ایگزیکٹیوآفیسر پاکستان ریلوے کورٹ احکامات کی عدم تعمیل کی صورت میں خود پیش ہونگے۔
لیکن مشروط این او سی جاری کر کے وہ پیش نہیں ہوئے۔جبکہ پاکستان ریلویز کی جانب سے زمین کی فراہمی کے حوالے سے بھی لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894کے بر خلاف شرائط عائد کی گئی ہیں۔ معزز عدالت نے مزید کہا کہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب کبھی بھی پاکستان ریلویز کے حکام کو عوامی مقاصد کے لئے زمین کی فراہمی کا کہا جاتا ہے۔
تو وہ محمد قاہر شاہ بنام فیڈریشن آف پاکستان وزارت ریلویز کے کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو بہانہ بنا لیتے ہے۔ معزز عدالت نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ریلویز کے اعلیٰ افسران عدالتی احکامات کے ساتھ کھیلواڑ کی کوشش کر رہے ہیں حتیٰ کہ وہ اضافی زمین کی عوامی فلاح کیلئے فراہمی پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں اور انصاف کی فراہمی میں بھی رکاؤٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔
خصوصا صوبہ بلوچستان کے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لئے رکاؤٹیں کھڑی کر رہے ہیں ان حربوں کے نہایت سخت نتائج بارہاں تمام متعلقین کوبھگتنے پڑ۔سکتے ہیں۔ زمین کی فراہمی کا مسئلہ فیڈرل گورنمنٹ اور صوبائی گورنمنٹ کا ایک ایشو ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان ریلوے یہ بات بھول کر کہ وہ پبلک انٹر پرائزز کا خود بھی حصہ ہے نجی و کمرشل انٹرپرائز کیطرح شرائط عائد کر رہی ہے۔