کوئٹہ: بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کا پہلا تعارفی اجلاس بی ایس او کے مرکزی سیکریٹریٹ بمقام شال منعقد ہوا۔دو دن سے چلنے والی سینٹرل کمیٹی اجلاس میں ملکی و بین الاقوامی سیاسی صورتحال، بلوچستان کے سیاسی و تعلیمی مسائل،تنظیمی امور اور آئندہ لائحہ عمل پر سیرحاصل گفتگو کی گئی۔ بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت مرکزی چئیرمین جہانگیرمنظوربلوچ نے کی جبکہ سیکریٹری جنرل عظیم بلوچ نے کاروائی چلائی۔
اجلاس کا آغاز شہداء بلوچستان کے یاد میں دومنٹ کی خاموشی سے ہوا۔تعارفی نشست کے بعد اجلاس کے ایجنڈے زیربحث رہے۔چئیرمین بی ایس او جہانگیرمنظور بلوچ نے سینٹرل کمیٹی اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی کارکن کو سب سے پہلے اپنے اندر کی انا کو شکست دینا ہوگا، ہمیں تنظیم اور اس قوم سے مخلص ہونا ہے۔غیرسیاسی رویوں کامقابلہ برداشت اور سیاسی حکمت عملی سے کیا جاسکتا ہے۔
کسی بھی تنظیم کے کارکن کیلئے وقت کی پابندی ضروری ہے۔سیاست میں عدم برداشت، جزباتی پن اور غیرسنجیدہ فیصلے اداروں کیلئے نقصان دہ ہیں۔سیاسی سرکلوں کے ذریعے نوجوانوں میں شعور کو پروان چھڑایا جاسکتا ہے۔بلوچستان میں طلباء کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو غیرسیاسی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اکیڈمک مسائل کے ساتھ بلوچ سماج میں ہونے والے سیاسی تبدیلوں اور ہمیں تقسیم کرنے کے سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تنظیم کے ممبران بلوچستان کے ہرکونے میں بی ایس او کا پیغام پہنچا کر نوجوانوں کی سیاسی تربیت کریں۔موجودہ صورتحال میں اتحاد و ہم آہنگی کے بغیر جدوجہد ممکن نہیں ہے،بی ایس او نے ہمیشہ غیرسیاسی رویوں کوختم کرنے اور طلباء میں سیاسی سوچ کی بیداری کیلئے جدوجہد کی ہے۔ اراکین نے بلوچستان کے سیاسی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہمیشہ عوامی رائے اور جمہوری آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک طرف جہاں بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف سیاسی فضاء کو کمزور کرنے کیلئے مختلف حربے آزمائے گئے ہیں۔ اراکین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی سیاسی حکمت کے تحت بلوچستان کو شمال و جنوب کے نام پر تقسیم کیا جارہا ہے،اس تقسیم درتقسیم کے پالیسی کے خلاف بی ایس او کا روز اول سے واضح ایجنڈہ رہا ہے۔
ہم بلوچ وطن کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ 2018کے انتخابات کے بعد پاکستان میں سلیکٹڈ اور پیراشوٹرز جیسے سیاسی ٹرم متعارف ہوئے ہیں مگر بلوچستان میں ہمیشہ اسطر ح کے حکمت عملیوں کے تحت عوامی رائے کے برخلاف سلیکٹڈ لوگوں کو ایوانوں پر بٹھایا گیا ہے۔انہی غیرسیاسی لوگوں کی وجہ سے بلوچستان میں مسائل روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔
طلباء سیاست پر قدغن لگا کر غیرسیاسی رویوں کو فروغ دی جارہی ہے۔ تعلیمی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے اراکین نے کہا کہ جامعات و تعلیمی اداروں کو زبوں حالی کا شکار بنا دیا گیا ہے آئے روز طلباء کے احتجاجوں میں اضافہ ہوا ہے۔بلوچستان یونیورسٹی سمیت صوبے کے دوسرے جامعات مالی بحران کا شکار ہیں،فیسوں کے نام طلباء کو حراساں کیا جارہا ہے جبکہ ایڈمیشن کوٹے پر سفارشی و من پسند افراد کو ترجیح دیا جارہا ہے۔
یونیورسٹیاں تعلیم و تربیت اور ریسرچ کے بجائے طالبعلموں سے پیسہ بٹور کر کاروباری ادارے بن چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں شلٹرلس اسکولوں کی کثیر تعداد ہے جبکہ کئی علاقوں میں پرائمری اسکولز غیرفعال ہیں۔صوبے میں گرلز ایجوکیشن کے حوالے سے حکمت عملی صفر ہے جسکی وجہ سے بلوچستان کی اکثر بچیاں حصول تعلیم سے محروم ہیں اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو چھاؤنیوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔
آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے پر گفتگو کرتے ہوئے اراکین سینٹرل کمیٹی نے تین مہینے کی تنظیمی پالیسی دے دیا،بی ایس اومیں تنظیم سازی، تمام زونوں میں ہفتہ وار اسٹڈی سرکلز،بلوچستان کے تعلیمی مسائل پر حکمت عملی سمیت دیگر اہم فیصلے کیے گئے۔ تنظیمی آرگن سگار کیلئے لٹریری کمیٹی بنائی گئی جو سگار کی ترتیب و تحریر کرکے اسے پبلش کرانے کا ذمہ دار ہوگا۔