|

وقتِ اشاعت :   April 16 – 2021

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مطالبات کرنا ہر کسی کا حق ہے، مسلح جتھوں کو ملک کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی وزرا اور حکومتی رہنماؤں کا اجلاس ہوا، جس میں ملکی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا، وزیرداخلہ شیخ رشید نے ملکی امن و امان کی صورتحال سے آگاہ کیا، جب کہ شرکا کو تحریک لبیک پر پابندی کے فیصلہ پر اعتماد میں لیا گیا۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مسلح جتھوں کو ملک کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، مطالبات کرنا ہر کسی کا حق ہے مگر پرتشدد احتجاج کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اور نا ہی پرتشدد احتجاج کر کے ریاست کو دباؤ میں لایا جا سکتا ہے۔وزیراعظم نے وزیرداخلہ شیخ رشید اور اور وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کو صورتحال پر قوم کو اعتماد میں لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو تمام صورتحال سے آگاہ کرنے کے لئے پریس کانفرنسز کریں۔

وزیراعظم نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور سیکورٹی اداروں نے جس جذبہ کے ساتھ امن قائم کیا قابل تحسین ہے۔دریں اثنائی حکومت نے کم آمدنی والے گھرانوں کے طلبہ کیلئے رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اسکالرشپ پروگرام کا آغاز کردیا جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت ہر سال 5 ارب 50 کروڑ روپے 70 ہزار اسکالر شپس دینے کیلئے خرچ کریگی۔

پاکستان میں کبھی اس سطح کی اسکالر شپ نہیں دی گئی، اسکالر شپ میرٹ پر دی جائینگی، جس معاشرے میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہ تباہ ہوجاتے ہیں، کوئی قوم اس وقت تک عظیم نہیں بن سکتی جو طاقتور کو قانون کے نیچے نہ لے کر آئے،ہماری حکومت کا مقصد ہے نبی ؐ کی زندگی کو عام لوگوں کی زندگیوں میں لے کر آئیں اور ان کی سنت پر چلنے کی کوشش کریں۔

رحمتہ اللعالمین ؐاسکالر شپس پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے وفاقی حکومت ہر سال 5 ارب 50 کروڑ روپے 70 ہزار اسکالر شپس دینے کے لیے خرچ کرے گی، کبھی پاکستان میں اس سطح کی اسکالر شپس نہیں دی گئی۔انہوں نے کہا کہ5 سال کے عرصے میں حکومت اس پر 28 ارب روپے خرچ کرے گی اور ساڑھے 3 لاکھ اسکالر شپس دے گی ۔

جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا سالانہ تقریباً 15 ہزار اسکالر شپس دینے کے لیے ایک ارب روپے کی رقم خرچ کرے گی۔انہوں نے کہا کہ اسکالر شپس پروگرام کا رحمتہ اللعالمین اس لیے ہے کیوں کہ کہ نبیؐ صرف مسلمانوں نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے اور یہ پروگرام بھی تمام پاکستانیوں کے لیے ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے نبیؐ جیسا انسان دنیا میں نہ کبھی پیدا ہوا نہ ہوگا ۔

کیوں کہ کسی بھی انسان کی وہ کامیابیاں نہیں ہیں جو ان کی ہیں اور دنیا کی عظیم ترین ہستیوں میں انہیں سب سے عظیم انسان کہا گیا ہے۔وزیر اعظم نے کہاکہ میں نے اپنے ملک میں یہ کوشش ہوتے کبھی نہیں دیکھی کہ دنیا کی تاریخ کے عظیم انسان کو مسجد سے نکال کر اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کریں۔انہوں نے کہا کہ قرآن پاک میں اللہ حکم دیتا ہے کہ ان کی زندگی سے سیکھو۔

ان کے سنت پر چلو کیوں کہ قرآن ہمارے لیے ہدایت کی کتاب ہے اس سے ہماری زندگی بہتر ہوگی اس سے ہمیں فائدہ ہوگا۔انہوںنے کہا کہ ہم پانچوں وقت نماز پڑھتے ہیں اور اللہ سے وہ راستہ مانگتے ہیں جو ہمیں نعمتیں بخشے گا خوشیاں دے گا سکون دے گا لیکن جو سب سے عظیم انسان اس راستے پر تھے، میں نے دیکھا کہ ان کی زندگی کا ہماری زندگی سے تعلق ہی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ مسجد سے باہر اپنی زندگیاں ری ماڈل کرنا ہماری سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے کہا کہ جب بھی اسلامی معاشرہ اسلام کے ان اصولوں پر واپس گیا ہے جو ریاست مدینہ میں بنائے گئے تھے تو وہ معاشرہ اوپر آیا ہے یعنی وہ نبیؐ کی سنت پر چل کر اوپر گئے۔عمران خان نے کہاکہ جس معاشرے میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہ تباہ ہوجاتے ہیں، کوئی قوم اس وقت تک عظیم نہیں بن سکتی جو طاقتور کو قانون کے نیچے نہ لے کر آئے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کا مقصد ہے کہ نبی ؐ کی زندگی کو عام لوگوں کی زندگیوں میں لے کر آئیں اور ان کی سنت پر چلنے کی کوشش کریں جو انہوں نے مدینہ کی ریاست میں قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست قائم کی لیکن اس کے ساتھ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی۔انہوں نے کہا کہ غریب لوگ تھے اور جنگ بدر کے دوران سب کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے لیکن جب کفار کے قیدی پکڑے گئے۔

تو ان سے رہائی کے بدلے پیسے لینے کے بجائے تعلیم کو ترجیح دی اور کہا کہ جو شخص 10 مسلمانوں کو پڑھا لکھا دے گا وہ آزاد ہوگا۔وزیر اعظم نے کہا کہ تعلیم کے حصول کو عبادت کا حصہ بنادیا گیا تو کئی صدیوں تک مسلمان سائنسدان ایسے ہی نہیں تھے اور خلیفہ مامون رشید نے دارالحکمت قائم کیا جہاں دنیا کی کتابیں ترجمہ کی گئیں، مسلمان رہنما تھے جس کی بنیاد مدینہ میں رکھی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پھر یہ بھی دیکھا کہ ہم نیچے کیسے گئے اور یورپ آگے کیسے گیا، انہوں نے تعلیم اور تحقیق پر زور دیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شفت محمود نے کہا کہ ان اسکالر شپس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی ذہین نوجوان صرف اس لیے تعلیم سے محروم نہ رہ جائے کہ وہ اس کے اخراجات نہیں اٹھا سکتا۔

اس اسکالر شپ پروگرام کے تحت 129 سرکاری یونیورسٹیز میں 69 ہزار اسکالر شپس دینے کا منصوبہ ہے۔وزیر تعلیم نے بتایا کہ 27 ارب 93 روپے کی لاگت سے سالانہ 50 ہزار اسکالر شپس ضرورت مند انڈر گریجویٹ طلبہ کو فراہم کی جائیں گی۔