|

وقتِ اشاعت :   March 7 – 2015

جمعیت علماء اسلام کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی و اپوزیشن لیڈ ر مو لا نا عبدالواسع نے کہا ہے کہ نہ ہی کبھی ہم نے اختر مینگل کی امامت میں نماز پڑھی ہے اور نہ ہی انہوں نے ہمارے امامت میں نماز پڑھی ہے سجدے اور رکوع کہاں سے آگئے کیا خوب ہوتا کہ ہم نماز پڑھتے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے رکوع اور سجدوں کی بات کرنے والوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ راؤنڈ جا کر چیلا کر آجائے تب رکوع اور سجدوں پر ہم سے بات کریں توہمیں خوشی ہو گی۔ یہ با ت انہوں نے گزشتہ روز ایک قوم پر ست رہنما ء کی جا نب سے جمعیت میں ان کو سجدے میں چھوڑنے کی با ت پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ وہ حیر ان ہے کہ ہمیشہ آمریت کیخلاف اور جمہوریت کی بقاء کی بات کرنے والے اپنی سیاست میںآمریت پسندوں کا رویہ رکھے ہوئے ہیں سینٹ کے الیکشن سے قبل تمام سیاسی جما عتوں نے سینٹ کیلئے اپنے امیدواروں کو کامیا ب کرانے کیلئے با ت چیت شروع کی تھی جس کا مقصد ووٹ دو اور لو کی بنیاد پر بات چیت شروع کی گئی تھی جو کہ الیکشن کی رات دیر گئے تک جا ری رہی جس میں ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کو شش ہو رہی تھی اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام نے اختر مینگل کی پارٹی بی این پی (مینگل) سے بھی رابطہ کیا چونکہ ان کے پاس اپنے اور اتحادیوں کے ہمراہ4ووٹ تھے جس پر ہم نے اپنے امیدوار کیلئے ان سے ووٹ مانگے انہوں نے صاف انکار کردیا تھا کہ وہ ہمیں ووٹ نہیں دے سکتے اس کے بعد مذاکرات کس بنیاد پر کیے جاتے جب وہ ہمارے امیدوار کو ووٹ دینے سے انکاری تھے اس لئے ہم نے اپنے امیدوار کو ضرور کامیاب کرانا تھا اس لئے ہم نے دیگر جماعتوں سے بھی رابطے کیے اور نواب ثناء اللہ زہری نے سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم سے اتحاد کرلیا اور ہمارے امیدوار کو ووٹ دینے کی حامی بھرلی جس پر ہم نے اس سے اتحاد کرلیا انہوں نے کہاکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آمریت کیخلاف ہمیشہ بات کرنے والے اور جمہوریت کی مضبوطی چاہنے والے جب آمریت کے رویے رکھے اور ہر اشخاص کی طرح پارٹیوں پر اپنے فیصلے مسلط کریں ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہماری ملاقات کو سردار اختر جان مینگل حرف آخر کی طرح لینگے نہ ہی سیاست میں اس طرح کے فیصلے کیے جاتے ہیں اپنے فیصلے دوسروں پر مسلط کیا جائے اگر ہمارے ملاقات سردار اختر مینگل کی نظر میں ایک غلطی ہے تو ہم یہ غلطی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ہم نے یہ ملاقات جمہوریت کا حسن برقرار رکھتے ہوئے جہاں دیگر جماعتوں سے صلاح و مشورے کیے وہی پر بی این پی (مینگل) کو بھی نظر انداز نہیں کیا انہوں نے کہا کہ یہ سینٹ کا الیکشن تھا جس کے ذریعے سینیٹرز کا انتخاب کرنا تھا اسے میں کوئی بھی پارٹی کسی کو یہ عہدہ تحفے میں نہیں دے سکتی دیگر جما عتوں کی طرح جمعیت علما ء اسلام کی بھی یہ کو شش تھی کی سینٹ میں زیادہ سے زیا دہ اپنے ارکا ن کو کامیاب کر اسکے جس میں ہمیں جہاں سے زیا دہ ووٹ ملنے کی پیشکش ہوئی تھی ہم نے ان سے اتحاد کر لیا لیکن گزشتہ دنوں میں ہمارے اپوزیشن کے ساتھی سرداراختر جا ن مینگل جیسے قدآور شخصیت کا یہ بیا ن کہ جمعیت نے ان کو سجدے میں چھو ڑ دیا انتہائی پریشان کن اور اس با ت کی غما زی کرتاہے کہ جو بھی سیا سی جما عت ان کے پا س جا ئے اگر وہ جماعت ان کی بات نہ مان لیں تو یہ اتنے غم وغصے کا اظہار کرتے ہیں جو کہ جمہوری رویوں کے شایان شان نہیں ہوتاماضی میں بھی سردار اختر مینگل اس طرح کی باتیں کرچکے ہیں جس سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا تاہم ہمیں اس بات کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آئندہ کیلئے اسے شخصیات جن کی نظر میں ایک ملاقات کی ناکامی کو سجدوں سے تشبیح دی جاتی ہے۔