|

وقتِ اشاعت :   April 19 – 2021

کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس محمد کامران خان ملا خیل اور جسٹس ظہیر الدین کاکڑ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے حکومت بلوچستان کے خلاف دائر کیس کی سماعت کرتے ہوئے کمشنر نصیرآباد ڈویژن کو حکم دیا کہ وہ حکومت کی جانب سے نصیر آباد ڈویژن میں شہری سہولیات کی بہتری سڑکوں، فٹ پاتھوں اور دیگر ذیلی سروسز کے لیے 180 ملین کی جو رقم مختص کی گئی ہے۔

اس کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے کہ آیا مذکورہ رقم سے کون سے ترقیاتی کام سرانجام دیے گئے ہیں یا ابھی زیر تجویز ہیں یا پھر ان پر مستقبل قریب میں کام شروع کیا جانے والا ہے۔معزز عدالت نے اوستہ محمد ٹاؤن میں بی ٹی اے کی جانب سے سیوریج سسٹم کی غیر تسلی بخش کام کی انجام دہی پر چیئرمین بی ڈی اے اور ریجنل ڈائریکٹر نیب کو بھی نوٹسزجاری کرنے کے احکامات دیے۔

قبل ازیں معززکے روبرو عدالت عالیہ کے گذشتہ احکامات کی تعمیل میں کمشنر نصیرآباد ڈویژن نے اوستہ محمد ٹاؤن میں تجاوزات اور ڈرینچ کی تعمیر سے متعلق پیش رفت رپورٹ جمع کروائی ان کا کہنا تھا کہ عدالت عالیہ کا حکم موصول ہونے سے قبل وہ دوبارہ تجاوزات کے خلاف مہم چلا چکے تھے عدالت عالیہ کے حکم پر ایک بار پھر تمام سٹاف ہولڈر بشمول انجمن تاجران کے نمائندے اور متعلقہ بار ایسوسی ایشن کے صدر کاایک اجلاس طلب کیا گیا ۔

جس میں اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں سرکاری اہلکاران انجمن تاجران اور بار کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی اس ضمن میں تجاوزات کرنے والوں کو نوٹسز جاری کیے گئے کمشنر نے عدالت عالیہ کو یقین دلایا کہ شہر کو ہر قسم کے غیر قانونی تجاوزات سے صاف کرنے کے حوالے سے کوئی د قبضہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا اسی طرح سیکریڑی مارکیٹ کمیٹی کو بھی فش مارکیٹ کے معاملات نمٹانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

مزید براں ریلویزگنداخہ بس سٹینڈ اور ڈیرہ اللہ یار بس سٹینڈ کی جائیداد پر غیر قانونی قابضین کو بھی نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں کمشنر نصیرآباد ڈویژن نے مزید بتایا کہ اورستہ محمدٹاؤن کے رہائشیوں کو مزید مشکلات سے بچانے کے لیے تمام سٹاف ہولڈرز اور متعلقہ محکموں کو ہدایت کردی گئی ہے کہ وہ فوری ترقیاتی کام مکمل کریں انہوں نے عدالت کے سامنے اسسٹنٹ کمشنر اوستہ محمد کا مورخہ 6 مئی 2021 کا مراسلہ بھی پیش کیا جو کہ ڈی سی جعفرآباد کو لکھا گیا تھا۔

جس میں بی ڈی اے کی جانب سے اوسطہ محمد ٹاؤن میں سرانجام دیے گئے سوریج سسٹم کے غیر معیاری اور نامکمل کام کی نشاندہی کی گئی تھی یہ سال 2006 ،2005 کی سکیم تھی جسے کاغذوں میں مکمل دکھایا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں کمشنر نصیرآباد نے اس حوالے سے معزز بیچ کو یقین دہانی کروائی کہ اس ضمن میں متعلقہ بی ٹی اے اہلکار ان کو مذکورہ نامکمل کام کی ورک پلان کے تحت تکمیل کے لیے مراسلہ لکھا جائے گا۔

اور کام کی کی تکمیل کیلئے مراسلہ لکھا جائیگااور کام کی تکمیل کویقینی بنایا جائیگاانہوں نے معزز عدالت کو یقین دہانی کراوتے ہوئے مزید کہا کہ نصیر آباد ڈویژن کے تمام بڑے شہروں میں تجاوزات کے خلاف مسلسل مہم چلائی جائے گی تاکہ شہر کوصاف اور ٹریفک کی آمدورفت کو آسان بنایا جا سکے جس پر معزز عدالت نے امید ظاہر کی کہ کمشنر نصیرآباد تمام ترقیاتی کاموں کی خود نگرانی کریں گے اور کنٹریکٹ میں فراہم کیے گئے۔

مقررہ وقت میں ان کاموں کی تکمیل کو یقینی بنائیں گے معزز عدالت کے استفسار پر کمشنر نے بتایا کہ حکومت نصیرآباد ڈویژن میں شہری سہولیات کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں اور دیگر ذیلی سروسز کے لیے 180 ملین مختص کر چکی ہے معزز عدالت نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نصیرآباد ڈویژن سے نہ صرف اچھی خاصی تعداد میں عوامی نمائندے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب ہوئے ہیں ۔

بلکہ صوبے کے اکثر وزراء اعلیٰ حتی کہ وزیراعظم جو کہ دوبارہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہے ہیں ان سب کا تعلق اس ڈویژن سے رہا ہے لیکن ان سب کے باوجود نصیر آباد ڈویژن کے تین بڑے شہروں کی صورتحال قابل رحم ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید ابتر ہوتی جارہی ہے حتی کہ موجودہ کابینہ میں بھی اس ڈویژن کے مناسب نمائندگی موجود ہے لیکن بدقسمتی سے صحت ،تعلیم ،پینے کے صاف پانی اور دیگر شہری سہولیات کا بیڑہ غرق ہے۔

لیکن نہ تو کسی عوامی نمائندے اور نہ ہی صوبے کے ایگزیکٹو برانچ میں سے کسی نے اس ڈویژن کی تباہی وخستہ حالی کا کوئی نوٹس لینا گواراکیا ہے معزز عدالت نے چیئرمین بی ٹی اے کو عدالتی نوٹس کے ساتھ عدالتی حکم کی بھی کاپی منسلک کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ وہ مذکورہ نامکمل کام کے حوالے سے جامع رپورٹ جمع کرائیں کمشنر نصیرآباد کو بھی اس ضمن میں اگلی پیشی پر جامع رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے ۔

معزز عدالت نے حکم نامہ کی کاپی کمشنر اور ایڈووکیٹ جنرل کو اطلاع وتعمیل کے لئے بھجوانے کا حکم دیا اسی طرح چیف سیکریڑی ، بلوچستان ،پرنسپل سیکریڑی ،وزیر اعلیٰ بلوچستان کو اصلاع و تعمیل کے ساتھ ساتھ عمل درآمد کے لئے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے گوش گزار کرنے کے لیے کاپی فراہم کرنے کا حکم دیا۔