عیدالفطر کے موقع پر پاکستان ریلوے نے ملک بھر میں 11 اسپیشل ٹرینیں چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ریلوے حکام کے مطابق پہلی عید ا سپیشل ٹرین کراچی سے 7 مئی کو لاہور کے لیے روانہ ہوگی۔ دوسری عید اسپیشل ٹرین کراچی سے 8 مئی کو لاہور کے لیے روانہ ہوگی۔ریلوے حکام کے مطابق تیسری عید اسپیشل ٹرین کراچی سے 9 مئی کو لاہور کے لیے روانہ ہوگی۔ چوتھی عیدا سپیشل ٹرین کراچی سے 10 مئی کو لاہور کے لیے چلے ہوگی۔ریلوے حکام کے مطابق کراچی سے راولپنڈی کے لیے عید اسپیشل ٹرین 11 مئی کو چلے گی۔ کراچی سے ملتان کے لیے عید اسپیشل ٹرین 12 مئی کوچلے گی۔
ریلوے حکام نے بتایا ہے کہ عید اسپیشل ٹرینوں میں بھی کورونا ایس اوپیز پر مکمل عملدرآمد کیا جائے گا۔دوسری جانب بلوچستان سے چلنے والی انٹرسٹی بس سروس پر سندھ میںداخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کی وجہ سے کوئٹہ سے کراچی جانے والے مسافروں کو شدیدمشکلات کا سامناکرناپڑرہا ہے اگر اسپیشل ٹرینیں چلانے کی اجازت ہے اور سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں میں بلوچستان کے مسافر کوچز جاسکتے ہیں تو سندھ نے کیونکر پابندی عائد کررکھی ہے، یہ مسافروں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔سند ھ حکومت کی جانب سے6 مئی کو اچانک مسافر کوچوں کو حب چوکی کے مقام پر روک دیا گیا ۔
جس سے مسافرگاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں، روزہ کی حالت میںمسافر شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہو گئے ، حیرت کی بات ہے کہ دیگر صوبوں اور شہروںمیںٹرین اور مسافر کوچز چل رہے ہیں مگر سندھ حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندی سمجھ سے بالاتر ہے کیا بلوچستان میں آنے والے کراچی سے تعلق رکھنے والے مسافروں کا اپنوں کے ساتھ عیدکی خوشیاں منانا جرم ہے، قانون یکساں طور پر لاگو کیاجائے این سی اوسی کا بنیادی مقصد ہی ڈائریکشن دینا اور اس پر عملدرآمد کروانا ہے ایک طرف وفاقی حکومت الگ فیصلے کرتی ہے جبکہ صوبے کورونا وباء کے حوالے سے مکمل جداگانہ پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں کورونا وباء کے دوران لاک ڈاؤن اور اسمارٹ لاک ڈاؤن دیکھے گئے جہاں پر یکساں قوانین لاگو کئے گئے اور شہریوں کو پہلے سے ہی معلومات دی جاتی رہیں مگر ہمارے یہاںرابطوں کا فقدان ہے اور وباء کے حوالے سے عجیب وغریب فیصلے کئے جارہے ہیں عوام کو شش وپنج میں مبتلا کیا جارہا ہے کبھی مارکیٹوں کو کھلی رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے اور پھر یکدم سے ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ پھر وزیراعظم عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ ہماری عوام سخت لاک ڈاؤن کی متحمل نہیںہوسکتی کیونکہ ان کے معاشی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ درحقیقت حکومت ایس اوپیز پر عملدرآمد کرنے کے حوالے سے جان چھڑاتے ہوئے سخت فیصلے کرکے لوگوں کو ذہنی اذیت میںمبتلا کرنا چاہتی ہے۔
کیونکہ مکمل حکومتی مشینری وضلعی آفیسران دن رات کے فرائض سے جان چھڑاتے ہوئے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے غریب عوام کی زندگی اجیرن بناتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا وباء کے پھیلاؤ کا کوئی خاص وقت ہوتا ہے جو لوگوں پر اثر کرتا ہے بازاروں میں رمضان المبارک کے بعد بھی اسی طرح عوام کاہجوم رہتا ہے گوکہ عید کی خریداری میں اس کا تناسب بڑھ جاتا ہے مگر عام طور پر تفریحی مقامات ، تجارتی مراکز پر روزانہ کی بنیاد پر لوگ جاتے ہیں محض اس دن سخت پابندیوں کی وجہ سے کیا کورونا وباء کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔
خدارا یکساں قوانین پر عمل کرتے ہوئے ایک میکنزم اپنایاجائے اول روز سے ہی یہی صورتحال ملک بھر میں دیکھی جارہی ہے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں الگ الگ پیج پر دکھائی دیتی ہیں حالانکہ این سی اوسی کے اجلاس میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے اور وہ مکمل تفصیلات فراہم کرتے ہیں جس کے بعدفیصلہ کااختیار بھی این سی اوسی پر چھوڑاجائے تاکہ مشترکہ طور پر ایک حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ عوام ان متضاد فیصلوں کی وجہ سے مشکلات سے دوچار نہ ہوں۔