گزشتہ تین سالوں سے موجودہ حکو مت کرپشن اور مافیاز کے خاتمے کے عزم کا اظہار کرتی آرہی ہے اور ملک سے بیرون ملک بھیجی گئی رقوم واپس لانے کے حوالے سے بھی حکومت یہی کہتی آرہی ہے کہ لوٹی ہوئی رقم واپس لائینگے ۔اس تمام دورانیہ میں بڑی سیاسی شخصیات سمیت بیوروکریسی کے اہم آفیسران کو گرفتار بھی کیا گیا مگر بعدازاں انہیں رہائی مل گئی اور وہ ضمانت پر رہا ہوئے، کچھ پر اب بھی کیسز چل رہے ہیں۔ حکومت نے اب ایک بار پھر سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کیخلاف حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیاہے۔گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ حدیبیہ کا مقدمہ شریف خاندان کی کرپشن کا سب سے اہم سرا ہے۔
جو طریقہ حدیبیہ میں پیسہ باہر بھیجنے کیلئے استعمال ہوااسی کو بعد میں ہر کیس میں اپنایا گیا۔وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں شہباز شریف اور نواز شریف مرکزی ملزم کی حیثیت رکھتے ہیں۔واضح رہے کہ حدیبیہ پیپر ملز نامی کمپنی شریف خاندان نے 1992 میں کمپنی آرڈیننس 1984 کے تحت قائم کی۔اس کمپنی کے سات ڈائریکٹرز تھے جن میں میاں محمد شریف، میاں شہباز شریف، عباس شریف، حمزہ شہباز شریف، حسین نواز شریف، صبیحہ عباس اور شمیم اختر ہیں۔حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نواز شریف اور شہباز شریف پر الزام تھا کہ انہوں نے 1990ء کی دہائی میں اپنی حدیبیہ پیپر ملز کے ذریعے 1.24 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی۔دسمبر 2000ء میں شریف خاندان کی جلاوطنی کے باعث حدیبیہ ریفرنس اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکا۔
سات برس بعد 2007ء میں نواز شریف کی وطن واپسی پر اسحاق ڈار اپنے اعترافی بیان سے منحرف ہوگئے۔پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں ستمبر 2011ء میں نیب کی جانب سے احتساب عدالت راولپنڈی میں مقدمہ کھولنے کی درخواست دائر کی گئی۔درخواست دائر ہوئی تو شریف خاندان نے ریفرنس کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں چیلنج کیا۔2012ء میں لاہور ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے شریف خاندان کی درخواست پر اختلافی فیصلہ دیا۔ دونوں ججوں کے اختلاف پر معاملہ ریفری جج کو بھجوایا گیا۔مئی 2014ء میں ریفری جج نے حدیبیہ ریفرنس خارج کرنے کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔نیب بورڈ نے اپنے پراسیکیوٹر کی رائے پر فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد ستمبر 2014ء میں احتساب عدالت نے بھی حدیبیہ ریفرنس بحال نہ کرنے کا فیصلہ سنا دیاتھا۔
ان تمام تفصیلات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پیپلزپارٹی بھی جو کچھ کرنا چاہ رہی تھی اس میں انہیں کامیابی نہیں مل سکی ۔ موجودہ حکومت نے اس کیس کو دوبارہ کھولنے کے حوالے سے کتنی تیاری کی ہے اور اس میں کتنی کامیاب ہوگی یہ تین سال سے چلنے والے کیسز کے نتائج سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بہرحال حکومت بیشک مافیاز پر ہاتھ ڈالے مگر اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرے کیونکہ ماضی میں انہی سیاسی انتقامی کارروائیوں کے باعث ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی اور آج ملک مختلف بحرانات کا سامنا کررہا ہے ۔شفاف احتساب ہر ملک کی ترقی وخوشحالی کا اہم جز ہوتا ہے اگر اس میں کوئی خاص سیاسی مقصد کارفرما نہ ہو، اگر سیاسی بدنیتی شامل ہوجاتی ہے تو اس سے ملک میں قانون سازی جو پارلیمنٹ میں کی جانی چاہئے اس پر حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ہم آہنگی کی بجائے کشیدگی بڑھ جاتی ہے اور اس طرح پارلیمان کمزور ہوکر رہ جاتا ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ شفاف احتساب ضرور کیاجائے مگر سیاسی انتقامی کارروائیوںکا عنصر اس میںشامل نہ ہوجو مستقبل میں پارلیمان کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔