گذشتہ ماہ برطانیہ سے لاپتہ ہونے والی تین طالبات کی ایک نئی ویڈیو فوٹیج منظر عام پر آئی ہے جس میں وہ بظاہر ترکی کی سرحد پار کر کے شام میں داخل ہونے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔
یہ طالبات ممکنہ طور پر شام میں موجود شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے 17 فروری کو لندن سے روانہ ہوئیں تھیں۔
برطانوی طالبات کی یہ نئی ویڈیو ترکی کے نشریاتی ادارے پر نشر کی گئی۔ اس ویڈیو میں طالبات کے ساتھ ایک شخص دکھائی دیتا ہے جو ترکی کی سرحد کے قریب ایک گاڑی کے باہر عامرہ عباسی، شمیمہ بیگم اور خازیدہ سلطانہ سے گفتگو کرتا ہے اور ان سے سفری دستاویزات پر بات کرتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس ویڈیو کو بنانے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا جس پر الزام ہے کہ وہ ترکی کی سرحد پار کرنے کے لیے تینوں برطانوی لڑکیوں کی مدد کر رہا تھا۔
ترکی کے وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ زیرحراست شخص جاسوس کے طور پر کام کرتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک نامعلوم ملک کے لیے بطور جاسوس کام کرتا تھا جو دولتِ اسلامیہ کے خلاف اتحاد میں شامل ہے۔
اس سے قبل برطانوی لڑکیوں کی ترکی پہنچنے کے بعد استنبول کے بس سٹیشن کی انتظارگاہ میں ان کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آچکی ہے۔
شامی پاسپورٹ
وزارتِ داخلہ سے متعلق بی بی سی کے نامہ نگار ڈینیئل سینفورڈ کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو ترکی اور شام کی سرحد پر واقع غزیانتیپ نامی قصبے کی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں برطانوی لڑکیوں کو غیرقانونی طور پر لوگوں کو سرحد پار کروانے والوں کی مدد حاصل تھی۔
اس نئی ویڈیو فوٹیج میں سنائی دینے والی کچھ گفتگو غیر واضح ہے تاہم اس میں یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ گفتگو میں شامی پاسپورٹ پر بھی بات ہوئی اور لڑکیوں نے وہی مخصوص سامان اٹھا رکھا تھا جو برطانیہ سے نکلتے وقت گیٹوک ائیرپورٹ پر ان کے پاس تھا۔
برطانوی لڑکیوں کے شامی سرحد پار کرنے سے تین ہفتے پہلے یہ ویڈیو بنائی گئی۔ جس میں ان کا ترکی کا سفر ختم آخری مراحل پر تھا۔
یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ طالبات اب شام میں دولتِ اسلامیہ کے کیمپ میں تربیت لے رہی ہیں۔ تاہم اب تک ان تینوں طالبات کا کسی سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
بتایا جاتا ہے کہ اب تک برطانیہ سے کُل 20 خواتین نے شام جا کر ممکنہ طور پر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شولیت حاصل کی ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ دنوں ترکی کے نائب صدر نے اپنے بیان میں برطانوی حکومت پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ اگر انھیں لڑکیوں کے ترکی پہنچنے کے بارے میں پہلے آگاہ کر دیا جاتا تو ضروری اقدامات کیے جاسکتے تھے۔
ادھر برطانوی سکیورٹی ایجنسیاں پہلے ہی تنقید کی زد میں ہیں کیونکہ ترکی پہنچنے والی طالبہ شمیمہ نے برطانیہ چھوڑنے سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اقصیٰ محبوب کو پیغام بھیجا تھا۔ یہ وہی اقصیٰ ہیں جو 2013 میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجو سے شادی کرنے کے لیے گلاسکو سے شام پہنچی تھیں۔