|

وقتِ اشاعت :   May 25 – 2021

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے امریکی افواج کو افغانستان میں موجودگی برقرار رکھنے میں مدد دینے کے لیے فضائی حدود اور زمین استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔اس بات کا دعویٰ انڈو پیسفیک افیئرز کے لیے امریکی نائب وزیردفاع ڈیوڈ ایف ہیلوے نے گزشتہ ہفتے امریکی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ میں کیا۔رپورٹ کے مطابق ڈیوڈ ہیلوے کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے گا کیونکہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔

ڈیوڈ ہیلوے نے بتایا کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکی موجودگی میں مدد کے لیے پاکستان کے اوپر فلائٹ اور زمین کے استعمال کی اجازت بھی دے دی ہے۔واضح رہے کہ امریکی صدرجوبائیڈن نے یکم مئی سے افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلاء کا اعلان کررکھاہے۔امریکی صدر کا کہناہے کہ وقت آگیا ہے کہ امریکا کی سب سے طویل جنگ کا خاتمہ کیاجائے اور امریکی فوج کو افغانستان سے واپس بلایا جائے۔

امریکی صدر نے اعلان کیا کہ یکم مئی سے امریکی افواج کا انخلاء شروع ہوجائیگا اور انخلاء کا یہ عمل 11 ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے 20 سال مکمل ہونے پر پورا ہوجائیگا۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد بھی دہشت گردوں پر نظر رکھی جائے گی۔خیال رہے کہ امریکا طالبان معاہدے کے مطابق امریکی افواج کو افغانستان سے مئی تک نکلنا تھا تاہم امریکی افواج کے انخلاء میں 4 ماہ کی تاخیر کی جارہی ہے۔افغان طالبان نے معاہدے کے مطابق انخلاء نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دے رکھی ہے، افغانستان میں 2500 سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ جس طرح سے افغانستان سے نکلنے کی تیاری کررہا ہے اس میں افغان حکومت کا کردارنہ ہونے کے برابر ہے اور نہ ہی بڑے معاملات پر افغان حکومت کو خاطر میں لایاجارہا ہے طالبان اور امریکہ اپنی پالیسیوں پر عمل پیراہیں اور یہ خدشہ بڑھتاجارہا ہے کہ دوحہ امن معاہدے کے نکات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی۔

خاص کر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والی بات چیت سمیت افغان انٹرا مذاکرات کے حوالے سے دونوں فریقین کے درمیان کوئی ایک بھی نشست نہیں ہوئی ہے ،یہ تاثر عام ہے کہ افغان طالبان موجودہ افغان حکومت کو اہمیت نہیں دیتے اس لئے طالبان براہ راست امریکہ سے اپنے مطالبات تسلیم کروار ہے ہیں اور امریکہ بھی طالبان کے ساتھ ہی بات چیت کررہا ہے۔ اگر افغان انٹرا مذاکرات نہیں ہوتے تو افغانستان ایک بار پھر جنگ کی طرف جائے گا اور اس بار شاید نتائج ماضی کے برعکس ہونگے کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ افغانستان میں متعدد گروپس کام کررہے ہیں اور بعض ممالک چند گروپس کی سرپرستی بھی کررہے ہیں جو اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ان گروپس سے کام لیتے آرہے ہیں اور اس کی گارنٹی کوئی نہیں۔

کہ مستقبل میں وہ پراکسی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ لہٰذا دوحہ مذاکرات کے نکات پر نیک نیتی کے ساتھ فریقین عمل کریں تاکہ افغانستان میں حقیقی معنوں میں امن قائم ہوسکے وگرنہ بھیانک نتائج کی برآمدگی اس خطے کو بڑی تباہی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی جانب سے فضائی اور زمینی حدود امریکہ کو استعمال کرنے کی اجازت دینے کی باتیں گزشتہ چند روز سے زیادہ گردش میں ہیں اس جانب بھی حکمرانوں کو غور کرنا چاہئے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان نے جس طرح سے امریکہ کا ساتھ دیا، اس جنگ کے اثرات نے پاکستان کے امن کو تباہ کرکے رکھ دیا، لہٰذا تمام پہلوؤں کاجائزہ لیتے ہوئے فیصلہ کیا جائے جو ملک کے وسیع ترمفاد میں ہوکیونکہ امریکہ اور عالمی طاقتیں محض اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں لہٰذا ہمیں بھی اپنے زمینی حقائق ، سیاسی ومعاشی حالات کے پیش نظر حکمت عملی مرتب کرنی چاہئے تاکہ کسی بڑے خسارے کا سامنانہ کرناپڑے۔